جب یار کے دل سے کہ فراموش ہوا میں
مجرم یوں محبت میں بنا دوش ہوا میں
سب درد ملے ہجر کے بے جرم سزا کے
اتنے جو سہے درد ستم کوش ہوا میں
مجھ کو ہے غمِ ہجر نے پینا یہ سکھایا
مے نوش ہوا میں تو بلانوش ہوا میں
آزاد مجھے کر دے خوشی دے نہیں سکتا
اے عشق ترے غم سے سبکدوش ہوا میں
إٓے نہ کبھی یار پہ الزام وفا کا
حامد کہ یہی سوچ کے خاموش ہوا میں

78