قسمتوں سے جدال کرتا ہوں
حسرتوں کا قتال کرتا ہوں
چاہتوں سے مری لڑائی ہے
درد و غم پر میں ڈھال کرتا ہوں
عشق میں درد کے سوا کیا ہے
الفَتوں سے سوال کرتا ہوں
روز تنہائیوں میں اپنی یوں
بے خودی میں دھمال کرتا ہوں
میں محبت تو کر نہیں سکتا
دشمنی بے مثال کرتا ہوں
کس نے پوچھا ہے حال مجھ سے کبھی
میں تو سب کا خیال کرتا ہوں
یارو گر تم اسی میں خوش ہو تو
اپنا جینا محال کرتا ہوں
دشمنو چند لمحے رک جاؤ
سانس اپنی بحال کرتا ہوں
زندگی مار لے تمانچہ مجھے
تیرے آگے بھی گال کرتا ہوں
درد سہہ کر بھی جی رہا ہوں ابھی
میں بھی حامد کمال کرتا ہوں

60