صبحِ نو کے یہاں پیغام الگ ہوتے ہیں
دل کے جذبات سرِ شام الگ ہوتے ہیں
لوگ بہروپ بدلتے ہیں یہ کیسے کیسے
باتیں الفت کی مگر کام الگ ہوتے ہیں
دو قدم ساتھ چلے چھوڑ گئے لوگ یہاں
منزلیں اور یہاں گام الگ ہوتے ہیں
ایک سی روحیں یہ جذبات و خیالات سبھی
چاہتوں میں مگر اجسام الگ ہوتے ہیں
مسکراہٹ کے بدل ملتی تھی چاہت بھی کبھی
اب محبت کے یہاں دام الگ ہوتے ہیں
اپنی دنیا کے حقائق نظر انداز نہ کر
خوابِ الفت کے در و بام الگ ہوتے ہیں
درد ملنے کو بھی اعزاز سمجھتے ہیں سبھی
چاہنے والوں میں انعام الگ ہوتے ہیں
عشق و دنیا کا ذرا فرق سمجھ لے حامد
مقبرے اور ہیں اہرام الگ ہوتے ہیں

38