| ان الفتوں کے قصے کیوں کر لٹک رہے ہیں |
| کیوں پیار کرنے والے رستے بھٹک رہے ہیں |
| دو جسم ایک جاں تھے اب تک جو یار دونوں |
| ہاتھوں کو اس طرح سے اب کیوں جھٹک رہے ہیں |
| شاید کہ چاہتوں میں اب وہ اثر نہیں ہیں |
| دل توڑ کر جو دلبر پاؤں پٹک رہے ہیں |
| جس نے جدائیوں کی کوئی خبر سنی ہے |
| حلقوم بھر گیا ہے کانٹے اٹک رہے ہیں |
| کتنے عذاب جھیلیں اب ہجر کے یہ مارے |
| ایسے خیال میرے دل میں کھٹک رہے ہیں |
| جس نے عتاب پایا دنیا سے الفتوں کا |
| سب لوگ دیکھ کر کیوں ان کو ٹھٹک رہے ہیں |
| اک بے خودی نچاتی ہے عشق میں یوں حامد |
| بس یار یار کرتے پل پل مٹک رہے ہیں |
معلومات