ان الفتوں کے قصے کیوں کر لٹک رہے ہیں
کیوں پیار کرنے والے رستے بھٹک رہے ہیں
دو جسم ایک جاں تھے اب تک جو یار دونوں
ہاتھوں کو اس طرح سے اب کیوں جھٹک رہے ہیں
شاید کہ چاہتوں میں اب وہ اثر نہیں ہیں
دل توڑ کر جو دلبر پاؤں پٹک رہے ہیں
جس نے جدائیوں کی کوئی خبر سنی ہے
حلقوم بھر گیا ہے کانٹے اٹک رہے ہیں
کتنے عذاب جھیلیں اب ہجر کے یہ مارے
ایسے خیال میرے دل میں کھٹک رہے ہیں
جس نے عتاب پایا دنیا سے الفتوں کا
سب لوگ دیکھ کر کیوں ان کو ٹھٹک رہے ہیں
اک بے خودی نچاتی ہے عشق میں یوں حامد
بس یار یار کرتے پل پل مٹک رہے ہیں

13