اس عشقِ بدلگام سے بچنا ہی چاہیے
ہر دل کے انہدام سے بچنا ہی چاہیے
مدہوش کر کے لوٹتے ساقی جو ہیں ہمیں
ہر میکدے سے جام سے بچنا ہی چاہیے
قاتل کی قاتِلانا ادإوں سے ہوشیار
شمشیرِ بے نیام سے بچنا ہی چاہیے
بے لوث ہیں وفإیں محبت کے واسطے
لیکن وفا کے دام سے بچنا ہی چاہیے
تم عشق میں فریب کسی کو کبھی نہ دو
قدرت کے انتقام سے بچنا ہی چاہیے
دنیا میں سب سے ملنا ضروری تو ہے مگر
بدنام خاص و عام سے بچنا ہی چاہیے
عزت ہے دل میں لہجہ ِٕ اخلاق میں بسی
ہر شخصِ بد کلام سے بچنا ہی چاہیے
حامد کہ آخرت میں حساب إٓے گا ترا
ہر کارِ اتّہام سے بچنا ہی چاہیے

66