جلوے الگ حسین رُخِ ماہتاب کے
سونے پہ ہیں سہاگہ اشارے جناب کے
لب تیرے جیسے ساغَر و مینا ہیں ساقیا
نظروں میں ہیں سرور سے مثلِ شراب کے
جادو یوں چل گئے مرے دل پر دماغ پر
اس حسنِ بے مثال کے تیرے شباب کے
ہونٹوں پہ لگ رہی ہے یوں مسکانِ قاتلاں
جیسے ہوں چار چاند تری آب و تاب کے
دیوانہ کر کے چھوڑیں گے مجھ کو ترا صنم
تیرے بدن سے پھوٹتے جھونکے گلاب کے
دیدار ہو کلام ہو قربت ہو صبح و شام
ارمان کم نہیں دِلِ خانہ خراب کے
حامد ہر اک گھڑی ہے قیامت ترے بنا
سمجھا نہ تو اشارے مرے اضطراب کے

22