| دل تیرا ہجر میں یوں پریشان اب نہیں |
| کیا تیرے دل میں پیار کے ارمان اب نہیں |
| تیری زباں پہ نام بھی باقی نہیں مرا |
| ہونٹوں پہ میرے نام کی مسکان اب نہیں |
| تیرے ہیں یار اور بھی ان میں مگن ہے تو |
| ٹوٹا ہے دل تو کوئی بھی پرسان اب نہیں |
| معصوم دل پہ کتنے ستم تو نے کر دیے |
| پتھر ہے تیرا دل کہ تو انسان اب نہیں |
| حاکم ہے میری سلطنتِ دل کا تو اے یار |
| میں تیرے دل کی نگری کا مہمان اب نہیں |
| جھک جاتی ہیں نگاہیں ترے روبرو صنم |
| تیری تو دید کو مری پہچان اب نہیں |
| تیری جدائیوں کا اثر مجھ پہ یوں ہوا |
| قابو میں ہی رہے مرے اوسان اب نہیں |
| اب عمر بھر یوں ہجر میں روتا رہے گا دل |
| حامد کہ یار ملنے کا امکان اب نہیں |
معلومات