| اک دیا تھا بجھا دیا دل کو |
| ہم نے خود ہی رلا دیا دل کو |
| دل تو نادان تھا مگر ہم نے |
| کیوں کسی پر لٹا دیا دل کو |
| عشقِ مبہم کے کچھ اشاروں نے |
| رقصِ بسمل کرا دیا دل کو |
| عشق کے روگ نے جدائی نے |
| ایک پاگل بنا دیا دل کو |
| جو کبھی آسماں میں اڑتا تھا |
| پستیوں میں گرا دیا دل کو |
| صاف تھا آئِنے کے جیسا دل |
| زخمِ فرقت لگا دیا دل کو |
| پھول جیسی تھی نازکی دل کی |
| خاک میں یوں ملا دیا دل کو |
| شوخیوں مستیوں کا شیدا تھا |
| روگ دل کا لگا دیا دل کو |
| پوجتا تھا دل ایک پتھر کو |
| توڑ کر تب جلا دیا دل کو |
| اک فقط درد کے سوا اب تک |
| ہم نے حامد ہے کیا دیا دل کو |
معلومات