اک دیا تھا بجھا دیا دل کو
ہم نے خود ہی رلا دیا دل کو
دل تو نادان تھا مگر ہم نے
کیوں کسی پر لٹا دیا دل کو
عشقِ مبہم کے کچھ اشاروں نے
رقصِ بسمل کرا دیا دل کو
عشق کے روگ نے جدائی نے
ایک پاگل بنا دیا دل کو
جو کبھی آسماں میں اڑتا تھا
پستیوں میں گرا دیا دل کو
صاف تھا آئِنے کے جیسا دل
زخمِ فرقت لگا دیا دل کو
پھول جیسی تھی نازکی دل کی
خاک میں یوں ملا دیا دل کو
شوخیوں مستیوں کا شیدا تھا
روگ دل کا لگا دیا دل کو
پوجتا تھا دل ایک پتھر کو
توڑ کر تب جلا دیا دل کو
اک فقط درد کے سوا اب تک
ہم نے حامد ہے کیا دیا دل کو

46