کیوں حاکم عیش پہ عیش کریں
کیوں لوگ وطن کے روئیں گے
کیا پاک وطن ہے امیروں کا
کیوں بوجھ غریب ہی ڈھوئیں گے
جو لوگ فقط ہیں مطلب کے
لالچ کے جن میں ڈیرے ہیں
کیوں ان کو حاکم چنتے ہیں
جو پکَے چور لٹیرے ہیں
کاٹیں گے فصل وہ ہم وطنو
جو بیج یہاں پر بوئیں گے
کیوں بوجھ غریب ہی ڈھوئیں گے
جب اپنے محافظ لوٹیں ہمیں
پھر کیسے کون بچائے گا
پھر کشتی کیسے نہ ڈوبے گی
جب خود ہی چھید لگائے گا
گر آج بھی ہم خاموش رہے
تو سفینہ ءِ ملک ڈبوئیں گے
کیوں بوجھ غریب ہی ڈھوئیں گے
کیوں ہم نے ضمیر سلائے ہیں
کیوں ظلمت ملک میں لائے ہیں
غفلت کی نیند سے جاگیں ہم
اس مٹی کے ہم جائے ہیں
اب عہد کریں ہم داغِ جفا
دامن سے اپنے دھوئیں گے
کیوں بوجھ غریب ہی ڈھوئیں گے
ہم خود ہیں محافِظِ پاکستاں
ہم اپنے وطن کو بچائیں گے
کبھی آنچ نہ آنے دیں گے ہم
سو جان وطن پہ لٹائیں گے
فولاد بنائیں گے سب کو
ہم ایک لڑی میں پروئیں گے
کیوں بوجھ غریب ہی ڈھوئیں گے

23