| بکھرے ہوئے ہیں لاشوں کے ٹکڑے سمیٹ دے |
| سردی سے اب تو جسم بھی اکڑے سمیٹ دے |
| مرجھا رہے ہیں پھول سے مکھڑے سمیٹ دے |
| یا رب تُو میری قوم کے دکھڑے سمیٹ دے |
| وہ غفلتیں جو ہم کو ہیں جکڑے سمیٹ دے |
| وہ لغزشیں جو دل کو ہیں پکڑے سمیٹ دے |
| زندگی تُو نے سکھائے زخم سینے کے سلیقے |
| دردِ دل کو چھوڑ کر بغض اور کینے کے سلیقے |
| زندگی تُو نے بکھیرے رنگ جتنے سب ہیں پھیکے |
| اب کے ہم نے ہیں بدلنے تجھ کو جینے کے سلیقے |
| اِس نظر میں مے اہم ہے باقی سب ہے ثانوی یاں |
| مے کدہ اور ساقی چننے، جام پینے کے سلیقے |
| نہیں برا ہے یہ دیس اپنا، ہیں بس برے سے یہ لوگ اس میں |
| کسی کو لالچ کسی کو طاقت، کہ سب کو لاحق ہیں روگ اس میں |
| ہے جو بھی اٹھتا وطن کی خاطر مٹائے جاتے ہیں اس کو شاطر |
| عجب ادا ہے عوام کی یاں، منائے جاتے ہیں سوگ اس میں |
| نہیں جُھکوں گا کھڑا رہوں گا، بنائے حق پر اڑا رہوں گا |
| وہ ہر نظر سے ہی گر گیا ہے، لیئے ہیں جس نے یہ جوگ اس میں |
| یہ جو نامعلوم تھے |
| ہم کو سب معلوم تھے |
| جتنی دہشتگردی تھی |
| ان کی ہی نامردی تھی |
| اب جو اپنا حال ہے |
| یہ بھی ان کی چال ہے |
| زندگی! آج کھل کے کہتا ہوں |
| تری چاہت سے ڈرتا رہتا ہوں |
| کوئی ایسا عمل کہ ہو تُو سفل |
| ان خیالوں میں روز بہتا ہوں |
| رنج و راحت کا اِک مرکب تُو |
| وقت بے وقت تجھ کو سہتا ہوں |
| جستجو اور گفتگو کے درمیاں ہی عقل ہے |
| ہاں مگر جب عشق ہو تو یہ توقّف قتل ہے |
| آدمیت کی زباں میں دِل لگی بے اصل ہے |
| ہاں مگر دِل کی لگی کو دِل لگی بھی وصل ہے |
| آج بنجر دِل میں ہر سُو اُگ رہی اِک فصل ہے |
| ہاں مگر اِسکا بھی باعث آنے والی نسل ہے |
| رات مختصر |
| بات مختصر |
| عشق جب ہوا |
| مات مختصر |
| (مصدق اخوندزادہ) |
| August 04, 2022. |