| اب بھی خود سے ڈرتے ہو؟ |
| اور جیون پر مرتے ہو؟ |
| خود کو بنانے کی خاطر |
| جانے کیا کیا کرتے ہو |
| جس نے تجھ کو لُوٹا ہے |
| اس کا دم تم بھرتے ہو |
| اگلے کھا گئے ماس تِرا |
| اور تم گھاس ہی چرتے ہو |
| جب اندر بدصورت ہے |
| تو پھر کاہے سنورتے ہو |
| کیا نہیں دیکھا ہے غربت کو |
| اِس رہ سے تو گزرتے ہو |
| سردی آندھی جاڑے میں |
| کیا تم بھی یوں ٹِھٹھرتے ہو؟ |
| انسانوں کے رتبے سے |
| روز ہی تو تم اترتے ہو |
| خود نیّا اپنی ڈبوتے ہو |
| اور پھر خود ہی مُکرتے ہو |
معلومات