| لگا کے دام مِرے کر ابھی ادا مجھ کو |
| یا دے مقام مِرا اوڑھ دے رِدا مجھ کو |
| جسے تو عشق کہے وہ تِری ضرورت ہے |
| فلک کے پار سے یہ آ رہی صدا مجھ کو |
| کبھی میں تخت نشیں تھا ابھی یہ صورت ہے |
| بنا گئی ہے تمنا تِری گدا مجھ کو |
| وہ جس کے نام سے دل میں مِرے کدورت ہے |
| وہ کر گیا تھا کبھی مجھ سے ہی جدا مجھ کو |
| ہے توڑ ڈالا یہ کہہ کر کہ ایک مُورت ہے |
| وہ بت کہ جس نے کیا تھا کبھی فدا مجھ کو |
معلومات