| لے کے جو دی آزادی تو دنیا ہوئی حیران |
| اے قائدِ اعظم نہ تھے ہم قابلِ احسان |
| ہر سمت ہے امت پر یوں چھائی تباہی |
| ملک اپنا ہے اور غیر کے ہاتھوں میں ہے شاہی |
| ڈھونڈے سے نہ ملتا ہے اب دیں کا سپاہی |
| کیا نعرہ تکبیر سے کوئی ہو گواہی |
| اسلام کا جھنڈا ہے نہ ہے کوئی میدان |
| اے قائدِ اعظم نہ تھے ہم قابلِ احسان |
| دیکھا تھا گو اقبال نے اک خواب سہانا |
| اس خواب کو گرچہ کہ حقیقت تھا بنانا |
| لیکن ہوا دو لخت یہاں تیرا گھرانہ |
| اور بَن گیا یہ ملک ہی دشمن کا نشانہ |
| گر زندہ تُو ہوتا تو ہوتا ہی پریشان |
| اے قائدِ اعظم نہ تھے ہم قابلِ احسان |
| لڑنے کا ہے دشمن نے عجب ڈھنگ نکالا |
| ہے توپ نہ بندوق نہ تلوار نہ بھالا |
| رشوت کی ہے بھرمار تو دھن بھی ہے کالا |
| بے نسل سے لوگوں نے وطن بیچ ہی ڈالا |
| اور اہلِ وفا پڑھتے رہے تیرے فرمان |
| اے قائدِ اعظم نہ تھے ہم قابلِ احسان |
| بنگال کا ہر فرد وطن پر گو فدا تھا |
| برتاؤ مگر سب کا ہی ان سے جدا تھا |
| لگتا تھا کوئی اور ہی تب ان کا خدا تھا |
| پھر نفرتوں کا قرض بھی کرنا تو ادا تھا |
| آباد کیا رہتے اب ایسے مسلمان |
| اے قائدِ اعظم نہ تھے ہم قابلِ احسان |
| جب حلف اٹھایا تھا تو خواب بڑے تھے |
| وردی کو پہن، شان سے سب ہی تو کھڑے تھے |
| عرصہ جو کچھ بیتا تو پھر ضد پہ اڑے تھے |
| طاقت کا نشہ لے کے اپنوں سے لڑے تھے |
| جب وقت پڑا ڈر گئے دینے سے سبھی جان |
| اے قائدِ اعظم نہ تھے ہم قابلِ احسان |
| اس قوم کو یکسر نہیں اب آئے خدا یاد |
| ہندو سے یہودی سے یہ کرتی ہے فریاد |
| اقوال تِرے ہو گئے سب کے سب بیداد |
| سب کھوکھلے نعرے تھے جانے کے تِرے بعد |
| اب تک کبھی کھولا نہ کسی نے بھی قرآن |
| اے قائدِ اعظم نہ تھے ہم قابلِ احسان |
معلومات