| دشتِ دوراں کے سرابوں کی سِتم خیز ادا |
| ہم کو ہم دِکھتے تو ہیں پر نہ سنیں اپنی صدا |
| ہم نے بولا تھا ناں، تم سے، کہ یہ تحریمِ جنوں |
| جان لے لے گی مِری، تم جو کبھی ہو گے جدا |
| ہائے دنیا تجھے دل میں تو بسانا ہے خطا |
| کون جی پایا ہے یاں ہو کے کبھی تجھ پہ فِدا |
| صنفِ نازک نے جو مردِانِ وفا تھے مانگے |
| تو غرض یہ تھی کہ وہ تھامے تو اوڑھا دے رِدا |
| ہم نہ کہتے تھے مصدِّق کبھی منہ پھیر زرا |
| آج در پر ہیں کھڑے بن کے کئیں تیرے گدا |
معلومات