| آتا ہے نظر تجھ کو کچھ امکانِ محبت |
| یا یوں ہی ہے لکھا یہ دیوانِ محبت |
| نفرت تھی جسے عشق و محبت سے ہی یکسر |
| وہ کر رہا تھا آج یوں اعلانِ محبت |
| رسوائیاں صاحب تمہیں دیتی نہیں ہیں زیب |
| رسوا کرے گا تم کو یہ ہیجانِ محبت |
| حاکم بنا ہو جو کہ فقط ظلم و ستم سے |
| جاری کرے گا وہ کہاں فرمانِ محبت |
| جو دل میں رہتا ہے وہ کتنا ہے ستمگر |
| یہ سب کسے معلوم ہو دورانِ محبت |
| عشق و جنوں دل اندروں رہ سکتے نہیں ہیں |
| یہ سچ ہمیں سمجھا گیا ایقانِ محبت |
| کچھ کام کا اب کیا رہا یہ مان مصدق |
| جب سے کیا ہے تو نے بھی پیمانِ محبت |
معلومات