| نہ جانے سامان دل لگی کا جہاں میں کیا تھا بشر سے پہلے |
| مِرا گماں ہے بہت تھی ویراں یہ دھرتی میرے گزر سے پہلے |
| فروغِ جیون تِرے سبب ہے یہ جانتا بس ہمارا رب ہے |
| میں جی رہا ہوں کہاں گماں تھا وہ تیری پہلی نظر سے پہلے |
| گو ایک پل میں وجود پائے تو ایک ہی پل اسے مٹائے |
| طویل لگتی ہے ہر کسی کو یہ زندگی بس بسر سے پہلے |
| محبتوں کی نہیں سمجھ تھی ہماری الفت بھی ناسمجھ تھی |
| عجیب دھڑکا لگا تھا ہم کو وبالِ دِل کی خبر سے پہلے |
| جو ڈھونڈتے ہیں جہاں میں مسکن کوئی بھی سمجھے نہ ان کی الجھن |
| نہیں تھے بے گھر کبھی پرندے گو کٹنے والے شجر سے پہلے |
| مسافتوں سے تھکے تھکے ہو بتاؤ کیونکر یہاں رکے ہو |
| قریب لگتی ہیں منزلیں سب ہمیں بھی اکثر سفر سے پہلے |
| نہ راس آئی تھی خود ستائی تجھے ہے بھاتی فقط گدائی |
| تجھے مصدق تھا کِس نے جانا تِرے سخن کے اثر سے پہلے |
معلومات