| ہم کو چل ہی گیا فیصلوں کا پتہ |
| شب کی تاریک سی محفلوں کا پتہ |
| جن کے ہونے سے ہم کو بھی تھا حوصلہ |
| کوئی دے ہم کو ان عادِلوں کا پتہ |
| تھے پہاڑوں سے اونچے جو ہوتے کبھی |
| اب نہیں مل رہا حوصلوں کا پتہ |
| مجھ کو مسحور کر کے گگن چھو گئے |
| لا بھی دے کوئی اُن بادلوں کا پتہ |
| تھے حفاظت پہ معمور جو ہمنشیں |
| کوئی پوچھے نہ ان قاتلوں کا پتہ |
| حشر سے پہلے جو سُوئے محشر چلے |
| لاپتہ ہے اب ان منچلوں کا پتہ |
| میں جو تاحال اپنا تلاشی ہی ہوں |
| کیا بتاؤں انہیں منزلوں کا پتہ |
معلومات