| در در یہاں جھکتے ہیں سر، بِکتی یہاں ہیں پگڑیاں |
| بِکتے یہاں ہیں بام و دَر، بِکتی یہاں ہیں پگڑیاں |
| جِس خاک کی خاطر ہوئے تھے لوگ سارے دَر بہ دَر |
| غیر آ بسے اُس خاک پر، بِکتی یہاں ہیں پگڑیاں |
| جو مِیر تھے سردار تھے، نواب تھے یا خان تھے |
| مغلوب اب آئیں نظر، بِکتی یہاں ہیں پگڑیاں |
| نامُوس اب ناپید ہے، عزت بھی اب یاں قید ہے |
| غیرت یہاں ہے بے اثر، بِکتی یہاں ہیں پگڑیاں |
| آزاد اب برباد ہیں، جو شاد تھے ناشاد ہیں |
| ہم کو ہے بس اتنی خبر، بِکتی یہاں ہیں پگڑیاں |
| جو پگڑیوں کے مول ہیں، گورے کے بس دو بول ہیں |
| کمزوریاں ہیں اِس قدر، بِکتی یہاں ہیں پگڑیاں |
| جب بِک رہا ہے سب کا سب، رہنے کا پھر ہے کیا سبب |
| یاں زندگی ہو کیا بسر، بِکتی یہاں ہیں پگڑیاں |
معلومات