| اب کے مل بیٹھ کے کہنے کو کہانی نہ رہی |
| اب ہے سب ہیچ، تخیّل کی روانی نہ رہی |
| مجھ سے کہتا ہے مِرا جسم جو دوڑوں میں کبھی |
| ہوں مجسم مگر اب مجھ میں جوانی نہ رہی |
| ہم کو تھی آگہی مطلوب پر اتنی بھی نہیں |
| اب ہیں خاموش کہ وہ شعلہ بیانی نہ رہی |
| ترکِ محفل کو کبھی ہم بھی سمجھتے تھے گراں |
| جب سے تنہا ہیں لگے کوئی گرانی نہ رہی |
| ایسا لُوٹا ہے مجھے میرے وطن والوں نے |
| اب مِرے پاس تِری کوئی نشانی نہ رہی |
معلومات