| یہ جو مرتے مرتے ہے کٹ رہی، اسے زندگی کا خطاب دو |
| ابھی ظلم اور بھی کر چلو، غمِ عاشقی کا عذاب دو |
| جو کہ عقل و فہم کرے عطاء، نہ قوم کو وہ نِصاب دو |
| اجی طاق میں ہی سجا رکھو، مِرے ہاتھ میں نہ کتاب دو |
| تُو نے دُکھ دیا تو گِلا نہیں، مجھے سُکھ کبھی بھی مِلا نہیں |
| تِری دشمنی سے نہیں غرض، مجھے دوستی کا حساب دو |
| کبھی رحم کی ہو تجھے طلب، کبھی آ چکی ہو یہ جاں بہ لب |
| تِرے دِل کو آس کی پیاس ہو، اسے آنسوؤں کی شراب دو |
| وہاں دُور اَبر برس رہا، یاں میں بُوند کو بھی ترس رہا |
| مجھے عکسِ ما ہی دکھائی دے، کوئی راستے کا سراب دو |
| یہ جو اُن پہ میری پڑے نظر، مِرے دِل پہ سیدھا کرے اثر |
| جو کہ سہہ سکے اُسی حُسن کو، مِری دید کو وہی تاب دو |
| یہ جو اپنے گِرد سماج ہے، نہ کہو کہ یہ لا علاج ہے |
| جو انا کی قبض کسی کو ہو، اسے تشنگی کا حباب دو |
| کہے وہ کہ دِل نہ دُکھاؤ اب، مجھے دِل میں اپنے بساؤ تو اب |
| سو جو پُرخطر سا وہ رنگ ہے، اسی رنگ کا ہی گُلاب دو |
| یہ جو ایک سے ہی نِراش ہے، جسے دوسری کی تلاش ہے |
| وہی پہلی بیوی سے کہتا ہے، لگا کے تو تھوڑا خِضاب دو |
| بے حجاب سُولی پہ چاڑھ دے، جو کہ بدچلن کو بھی گاڑھ دے |
| رے حیاءِ زَن کے محافظوں کی نظر کو بھی تو حجاب دو |
| کہیں لے میں آنا محال ہے، کہیں وزن پر ہی سوال ہے |
| کر ادب حساب و کتاب کا، سو خیال میرا ہی داب دو |
معلومات