| عشق تُو نے بھی تو کیا ہو گا |
| نوجوانی کو بھی جیا ہو گا |
| تیری باتوں سے ایسا لگتا ہے |
| عشق رنگین ہی رہا ہو گا |
| یہ الگ بات، تو چھپاتا ہے |
| تو بھی لیکن نہیں بچا ہو گا |
| ہمیں منظور جو چھو آئے تجھے |
| کہ ہوا میں، تُو بھی بسا ہو گا |
| اب تو باز آ بھی جا محبت سے |
| جان دے کر بھی کیا بھلا ہو گا؟ |
معلومات