راستے نہیں رہتے
واسطے نہیں رہتے
اس کی اِک تجلی سے
آئینے نہیں رہتے
گر مزاج مِل جائیں
فاصلے نہیں رہتے
ایک بدگمانی اور
حوصلے نہیں رہتے
عشق کے علاؤہ پھر
حادثے نہیں رہتے

16