| دنیا کے قفس میں ہوں میں آباد نہیں ہوں |
| پابندِ سلاسل ہوں میں آزاد نہیں ہوں |
| آخر کو بھی رہنا ہے افلاک میں مجھ کو |
| جنت سے تھے اجداد، زمیں زاد نہیں ہوں |
| تخلیق ہوں وہ رب کی جو مسجودِ ملائک |
| مخلوق کے ہاتھوں کی میں ایجاد نہیں ہوں |
| جب بھی کسی ناقد نے پڑھا میرے لکھے کو |
| تنقید ہوئی مجھ پہ میں نقاد نہیں ہوں |
| مجھ سے بھلا کیا ڈرنا ہے معشوق مرے نے |
| ہوں میں دامِ عشق میں صیاد نہیں ہوں |
| ٹوٹے نہیں ہیں حوصلے دنیا کے ستم سے |
| دِکھتا ہوں برباد میں برباد نہیں ہوں |
| میں مار ہی دوں آج یہ حاصل ہے مجھے حق |
| ناشادی پہ دشمن کی مگر شاد نہیں ہوں |
| مجھ کو نہ سِکھا کوئی روش ظلم و ستم کی |
| ہوں سر پِھرا پر حامئِ بیداد نہیں ہوں |
| تجھ کو نا بھلا پاؤں گا تا عمر، مصدق! |
| جو مجھ سے یہ کہتا تھا، اسے یاد نہیں ہوں |
معلومات