مِری آزادی کی قیمت مِرا مقروض ہونا ہے |
مِری قسمت میں آخر اب بھی جانے کتنا رونا ہے |
جو چاہیں کھیل لیں اس سے وگرنہ طاق پر رکھا |
مِرے آئین کو سب نے بنایا اِک کھلونا ہے |
بنامِ ملک اجڑی ہیں یہاں ماؤں کی ہی گودیں |
نجانے کتنے بچوں کو ابھی بھی اور کھونا ہے |
نچاتے ہیں یہاں بندر مداری ساری دنیا کے |
مقابل ساری دنیا کے مِرا تو قد ہی بونا ہے |
ہوں وہ دھرتی جہاں پر سر جو اکثر خاک ہوتے ہیں |
وہ ہیں دستار والے جن کے پیروں نیچے سونا ہے |
وطن پر آنچ جب آئے تو کرنا فاقہ پڑ جائے |
یہی وہ بار ہے جو یاں غریبوں کو ہی ڈھونا ہے |
ستم دیکھو کہ جس نے حلف اٹھایا تھا تحفظ کا |
اسی سے آج ڈرتا ملک کا ہر ایک کونا ہے |
معلومات