| جب سے پیروں میں ہیں ہمرے یہ چھالے نکلے |
| رہبری کیا، ہم قافلے سے بھی نکالے نکلے |
| مجھ آشفتہ کے پامال کیے جانے کو |
| خشت و سنگ کیا، یاں ہاتھوں میں بھالے نکلے |
| ہم تو سمجھے تھے، ہم ہی اندھے ہیں جہاں میں |
| پر ہم سے بڑھ کر، ہمیں چاہنے والے نکلے |
| خشک لبوں پہ فقط جو ہم نے زباں پھیری تو |
| چار اطراف سے سب ہی لے کے پیالے نکلے |
| پیر و مرشد انہیں مانا تھا اسی دنیا نے |
| اب ان سب کے ہی کرتوت ہیں کالے نکلے |
| روشنی درد بہت دیتی ہے اب آنکھوں کو |
| جب سے جیون سے ہیں میرے اجالے نکلے |
| اپنے ہونٹوں کو مصدقؔ تُو مقفّل کر لے |
| جب بھی بولا، ترے منہ سے ہیں نالے نکلے |
معلومات