Circle Image

آفتاب شاہ

@AFTAB

میں تجھ سے جو مانگوں تو یہی مانگوں کہ مجھ کو
محتاج نہ کرنا کسی دنیاوی خدا کا
دنیا کے مصائب سے اگر جھکنے لگوں تو
ہاتھوں میں تھما دینا عصا اپنی عطا کا
کمزور جو پڑنے لگے آواز تو میری
دنیا میں بڑھا دینا اثر میری صدا کا

0
2
داغ وہ سارے دھو سکتا ہے
اب بھی میرا ہو سکتا ہے
شانے لگ کے ہنسنے والا
ہنسنے ہنستے رو سکتا ہے
آنکھیں پڑھنے والا سب کی
سچ مچ پاگل ہو سکتا ہے

0
5
کبھی جو وہ مری یادوں میں مسکراتا ہے
زمانہ دُور کہیں چھپ کے کھلکھلاتا ہے
سمے کی شاخ پہ بیٹھا بھٹکنے والا وجود
فسوں کی شال میں لپٹا سا جھلملاتا ہے
سفید دھوپ کی کرنوں کی ہم نوائی میں
خزاں کے پیڑ پہ اک پھول گنگناتا ہے

0
5
سیاہ رات کے چُنگل سے گو نہیں چُھوٹا
گماں یہی ہے وہ قید میں نہیں ٹُوٹا
خلا سے گر نہیں اترے تو پھر بتاؤ مجھے
وطن کی لاج کو کس نے قدم قدم لُوٹا
یہ کس کے حکم سے انصاف مر رہا ہے یہاں
یہ سچ کی لاش پہ بیٹھا ہے کون سا جُھوٹا

0
13
دکھ اگر سوچ کی دھرتی پہ اترتا جائے
کالے بالوں کا سرا اگتے ہی مرتا جائے
سچ اگر جھوٹ کے آنگن میں بکھرتا جائے
قاضی انصاف کی کرسی سے لڑکھتا جائے
بیٹھ جائے جو جڑوں میں کسی فرزانے کی
عشق گھٹنوں میں پڑی عقل پہ ہنستا جائے

0
9
جتنے حسین چہرے تھے لوگوں کو بھا گئے
رستوں کو تکتے رہ گئے سادہ نقوش لوگ
سپنوں کی زندگی کوئی پیسے سے لے اڑا
سوچوں سے لٹکے رہ گئے غربت زدہ سے روگ
لوگوں سے کس طرح ملے ہنستے وجود سے
کاٹا ہو جس نے عشق میں درد و الم کا جوگ

0
12
ہوا کے دوش پہ رستہ بدلنے والے چراغ
جگہ جگہ پہ ملیں گے یہ جلنے والے چراغ
جو دوستی کا بدن اوڑھتے ہیں لالچ میں
منافقوں کے جہاں میں یہ ڈھلنے والے چراغ
کبھی جو جل بھی اٹھیں تو بجھ سے جاتے ہیں
یہ سازشوں کی نمائش میں ملنے والے چراغ

0
10
جن سے ٹوٹے ہوئے دل لمحوں میں جڑتے جائیں
درس گاہوں میں وہ اسباق پڑھائے جائیں
جن سے ماں باپ کی عظمت کا چلن بڑھتا ہو
میرے بچوں کو وہ آداب سکھائے جائیں
جس میں ہو ووٹ کی حرمت کا سبق لکھا ہوا
قوم کو میری وہ ابواب رٹائے جائیں

0
11
یہ جو تُو تاج محل، تاج محل کرتا ہے
ہاتھ مزدوروں کے کٹتے ہیں تو یہ بنتا ہے
دیکھ تُو خواب مگر اتنا تجھے یاد رہے
عشق غربت کے مکانوں میں سدا مرتا ہے
قید کر لیتا ہے جسموں کو مگر صدیوں سے
بادشاہ عشق کی شدت سے بہت ڈرتا ہے

0
20
حدت، خنکی، شدت، خوشبو ،چاند ستارہ عورت ہے
جوش، جوانی، رقص، ترنم ، روپ سہانا عورت ہے
نکہت، بادل، موسم، فطرت ، جھیل، گلاب، نشیلی دھوپ
تتلی، پھول، سنہری چڑیا، ہرن سوانا عورت ہے
بیتِ مومن، نظمِ ساحر ، نغمہِ اختر ، سوزِ میر
غزل، قصیدہ، مطلع، مقطع، شعر دو گانا عورت ہے

2
67
جیسے پیتل پہ لکھے لفظ ہیں لگتے زر سے
ویسے کچھ لوگ حسیں لگتے ہیں دنیا بھر سے
دوست آتے ہیں مرے پاس دلاسا دینے
جیسے رخصت کیا جاتا ہے کسی کو گھر سے
جیسے احساس کے مرنے پہ زمانہ روئے
جیسے بینائی کی میت کو اجالا ترسے

0
10
چاند پلکوں پہ لیے دھوپ کنارہ کرتے
جلتے موسم کی فضا کیسے گوارہ کرتے
کھینچ لاتے کسی بادل کو برسنے کے لیے
وہ جو حدت میں کھڑے ہم کو اشارہ کرتے
ہم کڑی دھوپ کو چھاؤں کا سہارا دیتے
بجھتے سورج کا سرِ عام نظارہ کرتے

16
شوقِ منزل بھی نہیں وصل کا موسم بھی نہیں
کون اترا ہے وحی لے کے تری سوچوں کی
تیرنا ہم کو بھی آتا ہے مگر اب کے تو
ہے الگ بات تری عشق چڑھی موجوں کی
مجھ کو دو راہے پہ لاتے ہو عجب پوچھتے ہو
لالی گالوں سے زیادہ ہے بتا ہونٹوں کی

0
11
گلہ نہیں کہ مرا آسماں پہ کوئی نہیں
زمیں ہے عشق کی عاشق یہاں پہ کوئی نہیں
یہ کس کے گھر کا پتہ دے کے تو ہوا غائب
عجب ہے بھیڑ جہاں اور وہاں پہ کوئی نہیں
وہ ساعتوں میں رکی سوچ کا مسافر ہے
سمجھ میں رہتا ہے لیکن گماں پہ کوئی نہیں

0
13
بہت سے روگ مری زندگی کو لاحق ہیں
تُو دیکھ لے جو مجھے کچھ شفا سی ہو جائے
میں چاہتا ہوں ترے لب ہلیں مری خاطر
مزارِ یار پہ کچھ تو دعا سی ہو جائے
تُو ڈھانپ لے مری لرزش کو دل ربائی سے
خلوصِ عشق میں پوجا ادا سی ہو جائے

0
13
آ بیٹھ نجومی پاس مرے
کوئی آس دلا دے ملنے کی
کوئی منتر پھونک دلاسے کا
دے شام وچھوڑا ڈھلنے کی
کوئی جادو پڑھ دے چاہت کا
دے راحت غم کے ٹلنے کی

0
44
رکتی سانسوں پہ سرِ شام تڑپنا کیسا
زندہ لاشوں کا سرِ عام یہ دھرنا کیسا
میں کلا کار ہوں غربت کی جہاں سازی کا
میری لرزش میں چھپی بھوک پہ ہنسنا کیسا
روز مرتا ہوں زمانے کی اداکاری سے
میری رنگت میں بسی زردی سے ڈرنا کیسا

0
11
شجر سوکھے تو موسم کو کبھی گالی نہیں دیتا
ہرے پتوں کو جیسے زندگی مالی نہیں دیتا
کمینہ زندگی میں بات اچھی کر نہیں سکتا
اندھیرے کو خدا جیسے کبھی لالی نہیں دیتا
خدا دیتا نہیں ہے دل کسی کو بھی کبھی کالا
زباں تو وہ کسی کو بھی کبھی کالی نہیں دیتا

0
15
رات ٹھہرے تھے مرے ساتھ وہ اللّٰہ اللّٰہ
خوشبو آنگن میں رہی رات وہ اللّٰہ اللّٰہ
دل نے آنکھوں کے نشیمن سے مچلنا چاہا
سن لی کانوں نے تری بات وہ اللّٰہ اللّٰہ
آنکھیں مخمور ہوئیں ہونٹ صنم بوس ہوئے
نکھرے سوچوں کے حسیں پات وہ اللّٰہ اللّٰہ

0
27
جڑ گیا میں جو حسیں شخص ترے نام کے ساتھ
موت بھی آئے گی مجھ کو بڑے آرام کے ساتھ
ڈھل گیا دن بھی تری یاد میں چلتے چلتے
مجھ پہ اترے گی مکیں رات تری شام کے ساتھ
روشنی وصل کی آتی ہے اذاں کے جیسے
وضو کرتی ہے دعا عشق کے الہام کے ساتھ

21
ہر روز دبے پاؤں چلے آتے ہیں شب کو
باتیں تری ، قہقہہ تیرا ، ہنسنا ترا اور تُو
دن کو بھی اُڑے آتے ہیں یادوں کے پروں پر
گجرا ترا ، آنچل تیرا، گیسو ترے ہر سو
ہر لمحہ ستانے کو سدا دیتے ہیں دستک
حدت تری، قربت تیری سانسوں کی وہ خوشبو

0
48
حسینؓ عشق مصطفیٰ حسینؓ عشقِ دین ہیں
حسینؓ حُسنِ مصطفیٰ کے معنوں میں حسین ہیں
حسینؓ عکسِ مصطفیٰ زمیں پہ تاج دار ہیں
جو شاہ ہیں جوانوں کے بہشت کے مکین ہیں
حسینؓ لختِ مصطفیٰ بحسینؓ ربطِ مصطفیٰ
حسینؓ دستِ مصطفیٰ عَلم کے جو امین ہیں

25
یہ سوگ ہے حسینؓ کا علی کے دل کے چین کا
رگوں میں بس گیا ہے جو یہ عشق ہے حسین کا
جو روشنی میں ڈھل گیا ستونِ دین بن گیا
یہ ذکر ہے حسینؓ کا علی کی آلِ زین کا
سوار تھا جو بخت پر متینِ دینِ تخت پر
یہ روپ ہے حسینؓ کا علی کے نورِ عین کا

0
23
شجر سوکھے تو موسم کو کبھی گالی نہیں دیتا
ہرے پتوں کو جیسے زندگی مالی نہیں دیتا
کمینہ زندگی میں بات اچھی کر نہیں سکتا
اندھیرے کو خدا جیسے کبھی لالی نہیں دیتا
خدا دیتا نہیں ہے دل کسی کو بھی کبھی کالا
زباں تو وہ کسی کو بھی کبھی کالی نہیں دیتا

0
35
کتاب آنکھیں، فسانہ چہرہ، غزل نگاہیں، حسین مکھڑا
ردیف رنگت ، قوافی زلفیں، ہنسی سفینہ، نگین مکھڑا
رباب بندش، بدن قصیدہ، گریز جوبن، بہار فتنہ
شباب مصرعہ، جمال مطلع، قتال مقطع، متین مکھڑا
کمال لہجہ، نفیس باتیں، وقار فقرے، بلند آہنگ
سلگتی قربت، پگھلتا نخرہ، ادائیں قاتل، معین مکھڑا

1
81
حدت، خنکی، شدت، خوشبو ،چاند ستارہ عورت ہے
جوش، جوانی، رقص، رعنائی، روپ سہانا عورت ہے
نکہت، بادل، موسم، فطرت ، جھیل، گلاب، نشیلی دھوپ
تتلی، پھول، سنہری چڑیا، ہرن شاہانا عورت ہے
بیتِ مومن، نظمِ فیض ، نغمہِ اختر ، سوزِ میر
غزل، قصیدہ، مطلع، مقطع، شعر دو گانا عورت ہے

0
62
مرے ہم نشیں یہ ملال ہے مری زندگی کہیں کھو گئی
مجھے ڈس لیا ترے عشق نے مری دلکشی کہیں کھو گئی
کسی اجنبی کا ہوا نہیں مرا دل بھی کُھل کے کِھلا نہیں
مرا ربط ٹوٹا جو یار سے مری خوش دلی کہیں کھو گئی
وہ عروج تھا تو بتا مجھے یہ عجب سا کیسا زوال ہے
مرا حال اب تو بے حال ہے مری تازگی کہیں کھو گئی

0
28
محبت مان ہوتی ہے یہی ایمان ہوتی ہے
دلوں میں گر اتر جائے تو رب کی شان ہوتی ہے
نظر کو صاف رکھتی ہے دلوں کو پاک رکھتی ہے
ملاوٹ سے یقیں مانو سدا انجان ہوتی ہے
محبت روپ ہے رب کا یہ وحدت کی نشانی ہے
اگر ہو شائبہ دل میں تو بس نقصان ہوتی ہے

0
26
شاہراہوں پہ میری تنہائی
خوب بھٹکی تو میری کہلائی
روز آئینہ ٹوٹ جاتا ہے
روز ہوتی ہے میری رسوائی
ساتھ میرے ہمیشہ رہتے ہیں
سایہ تیرا یہ تیری پرچھائی

0
21
گر کے اٹھنے پہ سنبھلنے کی صدا دیتے ہیں
ہم تجھے ظرف کی کم ظرف دعا دیتے ہیں
دل ترا بغض سے ہو جائے کبھی تو خالی
ہم تجھے صبر کی بے صبر قبا دیتے ہیں
کیسے احساس میں مرتے ہیں کہ ہم جینے کو
مٹنے والوں کو بھی بسنے کی سزا دیتے ہیں

0
61
کتاب آنکھیں، فسانہ چہرہ، غزل نگاہیں، حسین مکھڑا
ردیف رنگت ، قوافی زلفیں، ہنسی سفینہ، نگین مکھڑا
رباب بندش، بدن قصیدہ، گریز جوبن، بہار فتنہ
شباب مصرعہ، جمال مطلع، قتال مقطع، متین مکھڑا
کمال لہجہ، نفیس باتیں، وقار فقرے، بلند آہنگ،
سلگتی قربت، پگھلتا نخرہ، ادائیں قاتل، معین مکھڑا

0
180
ختم ہو دوسری یارو تو پہلی جاگ جاتی ہے
فنا تک کے سفر میں بھوک تو سونے نہیں دیتی
سمندر میں ڈبو کر زندگی مسرور رہتی ہے
کسی بھی ناخدا کو یہ خدا ہونے نہیں دیتی
زمانہ دے کے دھوکہ دیکھتا ہے کب میں روتا ہوں
یہ میری ماں ہے جو مجھ کو کبھی رونے نہیں دیتی

0
36
پھر ہوا شور مرے دل کے نہاں خانے میں
پھر تری یاد کے گھنگھرو میں پہن کر رویا
جب کسی شاخ پہ دیکھا کہ دو پنچھی بیٹھے
دل مرا رویا وہاں اور میں پھر گھر رویا
جب کسی ہاتھ نے تھاما جو مرا ہاتھ کبھی
پھر بچھڑنے کے تصور سے میں ڈر ڈر رویا

0
49
فرض کروں تو فرض میں مجھ کو سب کچھ فرضی لگتا ہے
فرض کی باتیں فرض کے قصے سب کچھ نفلی لگتا ہے
فرض جو چھوڑوں دل میں میرے فرض کے سپنے رہتے ہیں
فرض ہی مسجد فرض ہی مندر سب کچھ اصلی لگتا ہے
فرض کروں تو فرض فرض میں فرض کی شدت بڑھتی ہے
فرض کی نسبت فرض کی چاہت سب کچھ نسلی لگتا ہے

0
30
ڈھل گئی شام مگر یاد کا پنچھی نہ گیا
دل کی دیوار کا ہر روز وہ دکھ سہتا ہے
وعدہ کرتا ہے چلا جاؤں گا اور جاتا نہیں
ایسا بھولا ہے وہ اڑنا کہ یہیں رہتا ہے
مجھ کو لگتا ہے مرے دل میں مری رگ رگ میں
تیری قربت کا نشہ بن کے لہو بہتا ہے

0
42
خواب اتنے بھی نہیں آساں کوئی
آنکھ لگنے کا نہیں امکاں کوئی
آگہی دیکھ گئی ہے مرا گھر
صدق توڑے گا کیا پیماں کوئی
زندہ رہنے کو جو تو سوچے ہے
اب بھی رہتا ہے کیا ارماں کوئی

0
21
تم حسن کی حدت ہو کرشمہ ہو جدا ہو
افلاک کا تحفہ ہو تم رب کی عطا ہو
غازے کا تبسم ہو تتلی کی قبا ہو
تم قوس میں ڈھلتی ہوئی رنگوں کی عبا ہو
تم حور ہو جنت کی تم عکس سبا ہو
تم چاند کا ہالہ ہو آہو کی ادا ہو

0
67
عشق اقرار میں ڈوبے تو کہانی مانگے
جیسے صحرا میں بھٹکتا ہوا پانی مانگے
دل فسوں ساز مہکنے کو ترستا جائے
گویا وہ عشق میں اشکوں کی روانی مانگے
حسن دھوکہ ہے کسی آنکھ کی بینائی کا
عشق دریا ہے نگلنے کو جوانی مانگے

0
67
میں سچ کی لاش سے لپٹا ہوا فسانہ ہوں
میں بے خودی کے نشیمن کا اک ترانہ ہوں
میں جاچکا ہوں مگر یاد تجھ کو اتنا رہے
میں زندگی کے جہاں میں کھڑا زمانہ ہوں
مری لحد کے دریچے سے ہوگی صبح نئی
میں انقلاب کی آمد کا اک بہانہ ہوں

0
60
قید میں رسموں کی جکڑے ہیں دیوانے کیسے
بند ہیں خواب کواڑوں میں بیگانے کیسے
دل یہ کہتا ہے تیرے ساتھ ہی چلتا جاؤں
وصل کے آتے ہیں مجھے یاد زمانے کیسے
ہجر میں کون تجھے پہلی سی محبت بانٹے
جائے گا دل یہ بھلا تجھ کو منانے کیسے

0
100
مجھے یہ بتا کہ میں چل پڑوں یا کھڑا رہوں تری راہ میں
یا میں خود کو بیچ کے چھین لوں جو نہیں ملا ہے فضاؤں میں
مجھے یہ بتا یہ جو تتلیاں ترا نام لیتی ہیں جا بجا
تُو مجھے ہی لگتا ہے دلربا یا بسا ہے سب کی دعاؤں میں
مجھے یہ بتا کہ فضاؤں میں جو ہے روشنی ترے روپ کی
اسے خود میں ڈھالوں یا اوڑھ لوں یا مقیم ٹھہروں ہواؤں میں

0
48
مرے یار زرا تُو آنکھ اٹھا مجھے مار نہ خنجر بھالے سے
مرے یار زرا تُو دل سے لگا مجھے مار نہ خنجر بھالے سے
یہ چاقو چھریاں پھینک نہ تو میں قرب سے مرنے والا ہوں
مرے یار زرا تو پاس تو آ مجھے مار نہ خنجر بھالے سے
مجھے پینے دے ان آنکھوں سے مجھے نین کنویں سے دور نہ رکھ
آ نین سے میرے نین لڑا مجھے مار نہ خنجر بھالے سے

0
27
بے صدا سے شہر میں کچھ لوگ تنہا رہ گئے
آنکھ سے آنسو گرے تو خواب سارے بہہ گئے
بے خبر سی رات میں سنسان گلیوں کے چراغ
رتجگوں کی چاہ میں کیا کیا دلوں پر سہہ گئے
دیکھنے سے لگ رہا ہے آپ بھی واقف سے ہیں
جن پہ نازاں تھے کبھی یہ بات ہم کو کہہ گئے

31
الجھی ہوئی لکیروں کا یہ جال دیکھ کر
عامل بھی رو پڑا ہے مری فال دیکھ کر
ایسی لکیر جس پہ ترا نام تھا لکھا
وہ مٹ گئی ہے وقت کی یہ چال دیکھ کر
لالچ کے منہ میں ترس کا پانی سا آ گیا
غربت کی بستیوں میں پڑا کال دیکھ کر

34
ڈوبا ہے میرا گاؤں چلتا نہیں ہے زور
خود کو بچاؤں کیسے پانی ہے چاروں اور
کب تک کھڑا رہوں میں ہمت نہیں رہی
گرنے لگا ہوں میں تو کٹنے لگی ہے ڈور
گھر بار میرے بچے سیلاب کی نظر
میرا بھی آنسوؤں پر چلتا نہیں ہے زور

0
35
حسرتِ آب میں پایاب سے مر جاتے ہیں
ہم زمیں دوز تو سیلاب سے مر جاتے ہیں
بچ بھی جائیں جو اگر آفتِ دنیاوی سے
روز محشر ترے گرداب سے مر جاتے ہیں
خشک سالی کے کفن اوڑھ کے اکثر ہم تو
رکتے چلتے ہوئے بیتاب سے مر جاتے ہیں

30
روشن تری جبین سے سورج نے تاب لی
سونے کا رنگ ماند پڑا تجھ کو دیکھ کے
تاروں نے خود کو باندھ لیا روپ میں ترے
ہیرے کی کنیوں نے زباں منہ میں داب لی
جھرنوں کا رقص عکس ہے آواز کا تری
ندیوں نے زندگی سے تری طرزِ آب لی

0
70
جن سے ٹوٹے ہوئے دل لمحوں میں جڑتے جائیں
درس گاہوں میں وہ اسباق پڑھائے جائیں
جن سے ماں باپ کی عظمت کا چلن بڑھتا ہو
میرے بچوں کو وہ آداب سکھائے جائیں
جس میں ہو ووٹ کی حرمت کا سبق لکھا ہوا
قوم کو میری وہ ابواب رٹائے جائیں

0
66
یہ سوگ ہے حسینؓ کا علی کے دل کے چین کا
رگوں میں بس گیا ہے جو یہ عشق ہے حسین کا
جو روشنی میں ڈھل گیا ستونِ دین بن گیا
یہ ذکر ہے حسینؓ کا علی کی آلِ زین کا
سوار تھا جو بخت پر متینِ دینِ تخت پر
یہ روپ ہے حسینؓ کا علی کے نورِ عین کا

2
47
جہاں پر ایک ہوتا ہے وہاں دوجا نہیں ہوتا
جو آ جائے وہاں دوجا تو پہلا روٹھ جاتا ہے
زباں سے لاکھ کہہ دو تم محبت ہی عبادت ہے
عمل نا ہو اگر اس میں خدا بھی چھوٹ جاتا ہے
محبت ایسا بندھن ہے جو ہے ایثار سے قائم
جہاں پر ڈور ہو نازک وہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے

0
40
تمہیں کہا تھا نا لڑکی قریب مت آؤ
اجاڑ دے گا یہ فتنہ قریب مت جاؤ
تمیں جلا کے بھسم کر دیا نا چاہت نے
تمیں کہا تھا نا اس کو قریب مت لاؤ
یہ عشق ناگ ہے کچی عمر میں ڈستا ہے
تمہیں کہا تھا نا الفت کے گیت مت گاؤ

0
32
گزرے موسم کا چلن دل سے مرے گویا ہے
تجھ کو کھو کر بھی کہاں دل نے تجھے کھویا ہے
ضبط کے اشک دبائے ہیں ترے ہونے پر
چاند ہجرت کے مہینوں میں بہت رویا ہے
ہر گھڑی سوچ کو باندھا ہے تری یادوں سے
ہر گھڑی یاد کو اشکوں سے تری دھویا ہے

0
63
شاہراہوں پہ میری تنہائی
خوب بھٹکی تو میری کہلائی
روز آئینہ ٹوٹ جاتا ہے
روز ہوتی ہے میری رسوائی
ساتھ میرے ہمیشہ رہتے ہیں
سایہ تیرا یہ تیری پرچھائی

0
30
غزل (آفتاب شاہ)
نہ مجھ کو چین آوے ہے نہ مجھ کو نیند ہی آوے
سجن کی دے خبر کوئی کوئی تو اس طرف جاوے
جلن رہتی ہے سینا میں اسے کہہ دو صدا دے دے
کوئی تو یار کے کوچے سے تھوڑی دلبری لاوے
یہ دل کاہے کو تیری یاد میں جل جل کے دھڑکے ہے

0
44
ساری یادیں ساری باتیں تیر تار ہیں فطرت کے
ساری نظمیں ساری غزلیں گیت گات ہیں نصرت کے
ہم بھی وہی ہیں دل بھی وہی ہے خواب وہی ہیں ساجن کے
ساری آہیں ساری راہیں میت مات ہیں الفت کے
سارے اندھے سارے بھٹکے دھرتی کے رکھوالے ہیں
سارے قاتل سارے عادل سانجھ دار ہیں عشرت کے

0
28
صدائیں دینے والوں کو دعائیں دینے والوں کو
کبھی جھڑکا نہیں کرتے کبھی ٹوکا نہیں کرتے
جنہیں دل میں بسایا ہو جنہیں اپنا بنایا ہو
بچھڑ جائیں تو ان کی یاد کو روکا نہیں کرتے
جو چاہت میں محبت میں سدا مسرور رہتے ہیں
وفا سے باندھ کر خود کو کبھی ہوکا نہیں کرتے

0
69
خالی پڑے گلاس کو کیونکر بھرے کوئی
عقل و خرد کے طاق پہ کیونکر دھرے کوئی
کہنے کو کہہ بھی لے گا وہ سمجھے گا کس طرح
جھیلے ہوئے عذاب کو کیونکر پڑھے کوئی
دولت ہو جس کے پاس نہ طاقت ہو حسن کی
ایسے فضول یار پہ کیونکر مرے کوئی

0
30
خالی پڑے گلاس کو کیونکر بھرے کوئی
عقل و خرد کے طاق پہ کیونکر دھرے کوئی
کہنے کو کہہ بھی لے گا وہ سمجھے گا کس طرح
جھیلے ہوئے عذاب کو کیونکر پڑھے کوئی
دولت ہو جس کے پاس نہ طاقت ہو حسن کی
ایسے فضول یار پہ کیونکر مرے کوئی

0
36
میں نے ہر روپ ترا دل میں نکھارا تو جیا
شربتی آنکھ کا رس دل میں اتارا تو جیا
تیرے ہونٹوں کے تصور کی قسم جانِ جاں
تیرے رخسار کا تل دل میں ابھارا تو جیا
آتشی حسن میں ملفوف پری پیکر نے
اپنی قسمت کا بنایا جو ستارا تو جیا

0
205
میں نے ہر روپ ترا دل میں نکھارا تو جیا
شربتی آنکھ کا رس دل میں اتارا تو جیا
تیرے ہونٹوں کے تصور کی قسم جانِ جاں
تیرے رخسار کا تل دل میں ابھارا تو جیا
آتشی حسن میں ملفوف پری پیکر نے
اپنی قسمت کا بنایا جو ستارا تو جیا

0
32
سنوار دے جو نکھار دے جو اسی سے ہستی کی شام لینا
جلا دے دل کو بجھا دے دل کو نہ عاشقی کا وہ بام لینا
تمہارے ہاتھوں پہ دل بنانا بنا کے دل کو لگانا دل پر
اسی پہ ہنسنا اسی پہ رونا اسی سے مستی کا گام لینا
نظر ملانا مجھے ستانا پلٹ کے تیرا نظر چرانا
نظر چرا کے دوبارہ تکنا دوبارہ تک کے سلام لینا

0
43
سنوار دے جو نکھار دے جو اسی سے ہستی کی شام لینا
جلا دے دل کو بجھا دے دل کو نہ عاشقی کا وہ بام لینا
تمہارے ہاتھوں پہ دل بنانا بنا کے دل کو لگانا دل پر
اسی پہ ہنسنا اسی پہ رونا اسی سے ہستی کی گام لینا
نظر ملانا مجھے ستانا پلٹ کے تیرا نظر چرانا
نظر چرا کے دوبارہ تکنا دوبارہ تک کے سلام لینا

0
31
اپنے انجام سے ڈرتے ہیں نہ لٹھ چھوڑا ہے
تری چاہت میں مری جان یہ گٹھ چھوڑا ہے
یاد کے دشت سے جو آتی ہے خوشبوِ صنم
میں نے صحرا پہ ترے نام کو پڑھ چھوڑا ہے
دیکھنے والے مجھے دیکھ میں وہ سرکش ہوں
عشق کو جس نے درِ بام پہ رکھ چھوڑا ہے

0
47
نگین لگتا ہوں میں دل نشین لگتا ہوں
وہ دیکھ لے جو مجھے میں حسین لگتا ہوں
وہ تتلیوں میں بسی اپسرا سی شہزادی
جو سوچ لے وہ مجھے میں سبین لگتا ہوں
خرید لے وہ اگر کچھ کہیں بھی سستے میں
میں دل کی بستی میں بکتی زمین لگتا ہوں

0
57
ہجر ایسا ہے کہ ہر اشک صدا دیتا ہے
درد ایسا ہے کہ ہر رگ سے نوا آتی ہے
دل یہ کہتا ہے زمانے کو بتا دو لیکن
صبر کی چیخ مرے دل کو دبا آتی ہے
ضبط کی ناؤ پہ رکھا ہوا ہے وعدہ کوئی
وصل کی کوکھ سے حسرت کی ہوا آتی ہے

0
48
میں تیری کہانی میں سدا رہ نہیں سکتا
جیسے تُو جوانی میں سدا رہ نہیں سکتا
میں رہ نہیں سکتا سدا موجوں کے سفر میں
دریا ہوں روانی میں سدا رہ نہیں سکتا
چپ چاپ نکل جاؤں گا میں دشتِ خرد سے
میں نقل مکانی میں سدا رہ نہیں سکتا

0
64
میں لخت لخت جلا ہوں تپیدہ دل لے کر
میں دشت دشت پھرا ہوں دریدہ دل لے کر
اے جانے والے تجھے دیکھنے کی حسرت میں
میں زخم زخم چلا ہوں شدیدہ دل لے کر
میں تیری یاد میں خود سے ہوا ہوں بیگانہ
میں قطرہ قطرہ بہا ہوں کبیدہ دل لے کر

0
71
ستم گر کیا کیا تُو نے بصارت چھین لی ہم سے
کٹورا دے دیا ہم کو جسارت چھین لی ہم سے
مری دھرتی کے ملا نے ہمیں بانٹا ہے کچھ ایسے
کہ رسی توڑ کے سب کی بشارت چھین لی ہم سے
مرے بچوں کی آزادی غلامی میں بدل ڈالی
دیا تحفہ جو جدت کا حرارت چھین لی ہم سے

0
56
جنہیں فکر تھی مری ہر گھڑی وہی لوگ جانے کدھر گئے
جنہیں پیاس تھی مری دید کی وہی لوگ کیسے بکھر گئے
جو اجڑ گئے تری چاہ میں جنہیں روگ لگتی تھی عاشقی
وہی بزم میں تجھے دیکھ کر نہ ادھر گئے نہ ادھر گئے
ترے ہجر نے جو ڈسا تو پھر مری سوچ خود سے بچھڑ گئی
مری نیند بکھری در بدر مرے خواب سوئے بھنور گئے

0
50
آنکھ کنارے دل کٹیا میں نرمل روپ تمہارا ہے
سوچ ستارہ بام پہ اترا دل نے تجھے پکارا ہے
روپ نگر کا جیون تم سے حسن نگر کی چھایا ہو
پریم نگر کی رانی ہو تم رب نے خاص اتارا ہے
تیرے در پر چاند ستارے بھکشا مانگیں درپن کی
سندرتا کا سپنا ہو تم جس نے جگ کو نکھارا ہے

0
93
جو دل کے پاس رہتے ہیں وہی اکثر نہیں ہونگے
جو اپنے ہیں وہی اک دن یہاں یکسر نہیں ہونگے
زبر سے زیر کی مدت بہت ہی مختصر سی ہے
مگر جب پیش ہونگے ہم تو ہم دلبر نہیں ہونگے
ہمی ہونگے ہمارے ساتھ میں اعمال ہونگے بس
کسی کے بول میٹھے بھی وہاں کمتر نہیں ہونگے

0
56
جس کے تل پر ابھی افسانے لکھے جاتے ہیں
اس کے عاشق سبھی دیوانے لکھے جاتے ہیں
جس کے رخساروں پہ تحریر کی جرات نے غزل
اس کے مجنوں سبھی فرزانے لکھے جاتے ہیں
جس کے ہونٹوں پہ کبھی میر نے ڈالی تھی نظر
اس کے واقف سبھی انجانے لکھے جاتے ہیں

0
69
نئی زمینیں نئے آسماں بناؤں گا
دریدہ عہد میں اپنا جہاں بناؤں گا
میں کھینچ لوں گا سورج کو اپنی دھرتی پر
حدودِ شمس میں اپنا زماں بناؤں گا
درونِ دل میں تجھ کو چھپا کے رکھنا ہے
فصیلِ دل پر اپنا مکاں بناؤں گا

0
51
ایسا لگتا ہے برا ہوں ہیں مرے یار غلط
جھوٹ ہے عشق و محبت ہے مرا پیار غلط
دنیا بےکار ہے ہیں ارض و سما، بھی جھوٹے
شیخ بھی جھوٹا ہے ہے ملا بھی مکار غلط
جذبے جھوٹے ہیں سبھی رشتے بھی جھوٹے سارے
لفظ جھوٹے ہیں تو ہیں جملے بھی بےکار غلط

0
40
اپنے انجام سے ڈرتے ہیں نہ دکھ چھوڑا ہے
تری چاہت میں مری جان یہ سکھ چھوڑا ہے
یاد کے دشت سے جو آتی ہے خوشبوِ صنم
میں نے صحرا پہ ترے نام کو لکھ چھوڑا ہے
دیکھنے والے مجھے دیکھ میں وہ سرکش ہوں
عشق کو جس نے درِ بام پہ رکھ چھوڑا ہے

0
34
رسمِ اغیار مرے یار نہیں لے سکتا
سوچ بیکار مرے یار نہیں لے سکتا
بھر نہیں سکتا کبھی جھوٹ سے کاسہ اپنا
زخمی کردار مرے یار نہیں لے سکتا
سر کٹا سکتا ہوں گر عشق میں کاٹے کوئی
شوقِ آزار مرے یار نہیں لے سکتا

0
57
نظر انداز کرتے ہو مجھے دن رات کرتے ہو
بتاؤ نا مجھے ہر روز کس سے بات کرتے ہو
مجھے کہتے ہو مجھ کو کام ہے مصروف ہوتا ہوں
مرے حصے کی چاہت اب کسے سوغات کرتے ہو
کسے سجدوں میں تم نے اب امامت سونپ رکھی ہے
کسے دیوی بنا کر روز منا جات کرتے ہو

63
مکھڑا اس کا کتاب جیسا ہے
گویا کھلتے گلاب جیسا ہے
جس کی پوجا ہے عاشقی میری
اس کو تکنا ثواب جیسا ہے
باتیں اس کی ہیں زندگی میری
لہجہ اس کا تو خواب جیسا ہے

0
61
ساری دنیا واروں تجھ پر بیٹھوں تیرے پاؤں میں
تُو جو گزرے تُو جو ٹھہرے گوری میرے گاؤں میں
تارے توڑوں سورج روکوں چندا کھینچ کے لاؤں میں
ہاں پر تیری یارا سن لے گھوڑی چڑھ کر آؤں میں
پینگ بنا لوں جسم کی تیری فلک سے تارے توڑوں میں
اپنی ذات میں ڈھال کے تجھ کو جھولا عشق چڑھاؤں میں

0
58
اچھا جتنا بھی ہو لہجہ وہ صدا ہوتی ہے
بات کر لے جو سخن گر تو جدا ہوتی ہے
باغِ اردو کی مہک رازِ خدا ہوتی ہے
کوچہ اردو میں ہوا بادِ صبا ہوتی ہے
حرف ملتے ہیں جو دل سے تو ندا آتی ہے
معنی لفظوں سے ملیں تو وہ ردا ہوتی ہے

0
46
اچھا جتنا بھی ہو لہجہ وہ صدا ہوتی ہے
بات کر لے جو سخن گر تو جدا ہوتی ہے
باغِ اردو کی مہک رازِ خدا ہوتی ہے
کوچہ اردو کی ہوا بادِ صبا ہوتی ہے
حرف ملتے ہیں جو دل سے تو ندا ہوتی ہے
معنی لفظوں سے ملیں تو وہ ردا ہوتی ہے

0
71
کہا چاند نے مرے کان میں ترا یار حسن کی کان ہے
میں کہا اسے کہ وہ دلربا مرا عشق ہے مری جان ہے
کہا پھول نے مرے یار کو ترا یار بھی تو کمال ہے
مرے یار نے یہ کہا اسے مرا یار ہی مرا مان ہے
کہا شمس نے مرے کان میں ترے پیار پر مجھے رشک ہے
میں کہا اسے یہ جو پیار ہے مری سوچ ہے مری شان ہے

49
جا بتا اسے کہ وہ آگیا تری زندگی کے جہان میں
جو سرورِعشق کا پیر ہے جو رہے گا تیرے زمان میں
جا بتا اسے کہ وہ آگیا جسے کھینچا تھا تری چاہ نے
جو بھٹکتا پھرتا تھا عشق میں جو سدھر گیا تھا گمان میں
جا بتا اسے کہ وہ کھو گیا کہیں در بدر سا وہ ہو گیا
جو شکستہ پا بھی کھڑا رہا وہ بکھر گیا ہے تکان میں

0
42
وجودِ رفتہ سے ہو جا تُو جہاں کی طرح
سرودِ رفتہ سے ہو جا تُو لامکاں کی طرح
ترے سوال سے پیدا ہوا وجود اس کا
وجود اس کا ہے رازِ کن فکاں کی طرح
خرد کی چال میں الجھا ہوا ہے دل تیرا
خودی میں ڈوب جا بن جا تُو آسماں کی طرح

0
111
عشق ہوتا نہیں قصور میاں
یہ ہے فطرت نہیں فتور میاں
جانے والا بھلے چلا جائے
دل میں ریتا ہے وہ ضرور میاں
ڈالی ڈالی پہ پہرا دیتے ہیں
لوگ پنچھی ہیں اور طیور میاں

0
52
ستائے کو ستائیں گے رلائے کو رلائیں گے
یہ سپنے روگ ہیں یارو کوئی طوفاں اٹھائیں گے
یہ نیندوں کو اجاڑیں گے یہ سوتوں کو جگائیں گے
کوئی فتنہ کوئی جھگڑا یہ سوچوں میں ہلائیں گے
یہ سپنے روگ ہیں یارو کوئی طوفاں اٹھائیں گے
یہ لفظوں سے بھی کھیلیں گے یہ حرفوں پر بھی چھائیں گے

106
مجھے لیڈر بنا دو نا مجھے بھی بھوک لگتی ہے
مجھے افسر لگا دو نا مجھے بھی بھوک لگتی ہے
مجھے بھی پل بنانا ہے کوئی ٹھیکہ ہی دلوا دو
زرا ان سے ملا دو نا مجھے بھی بھوک لگتی ہے
مجھے بھی دور جانا ہے بہت بیمار رہتا ہوں
کوئی پرچی لکھا دو نا مجھے بھی بھوک لگتی ہے

0
70
مرے ہجر کا تُو علاج کر کوئی حل بتا مرے سائیاں
مرے درد کو مرے کرب کو تُو پرے ہٹا مرے سائیاں
مجھے دیکھ جا مرے چارہ گر میں تری نظر کا شکار ہوں
کہاں کیوں ہوا کہاں کیا ہوا نہ مجھے سنا مرے سائیاں
زرا ہاتھ رکھ کے تو ہاتھ پر مری دھڑکنوں کو قرار دے
مجھے ریزہ ریزہ سمیٹ کر تُو گلے لگا مرے سائیاں

46
قاصد کو دیکھ کر کہا میرے حبیب نے
جیتا ہے یہ بتا کہ وہ مومن کے دور میں
کیسا عجیب یار ہے لکھتا ہے اب بھی خط
اردو سلیس لکھتا ہے رومن کے دور میں

0
61
فکر غالب کی ترا عشق ہے مومن جیسا
داغ کا چرچا بھی دن رات بہت کرتا ہے
درد کے درد کی شدت سے نا مر جائے تُو
میر کا غم بھی لیے دل میں تُو تو پھرتا ہے
روگ تجھ کو بھی کوئی لگتا ہے آتش جیسا
کون شعروں میں بتا سوز ترے بھرتا ہے

0
14
186
ہمارے گھاؤ کبھی ہم کو بھی دکھائی دیں
علاج ایسا کرو خود کو ہم سنائی دیں
کوئی طبیب بھی چارہ گری پہ راضی نہیں
مزارِ زیست پہ اب کس کو ہم دہائی دیں
مکر گیا ہے مرا یار اپنے وعدے سے
تو منصفی پہ اسے کیوں نہ ہم مٹھائی دیں

0
52
ہمارے گھاؤ کبھی ہم کو بھی دکھائی دیں
علاج ایسا کرو خود کو ہم سنائی دیں
کوئی طبیب بھی چارہ گری پہ راضی نہیں
مزارِ زیست پہ اب کس کو ہم دہائی دیں
مکر گیا ہے مرا یار اپنے وعدے سے
تو منصفی پہ اسے کیوں نہ ہم مٹھائی دیں

0
47
وہ شوخ فطرت وہ عکسِ قدرت چہک رہی تھی وہ شان والی
ملی مجھےتو ٹھٹک کے بھٹکی وہ تتلیوں کی اڑان والی
پلٹ کے دیکھا تھا اس نے مجھ کو پلٹ کے واپس وہ جا نہ پائی
ملی مجھے تو سسک کے پلٹی انا کی بیٹی وہ مان والی
بدن کے گہنوں کو جو چھپا کر ہمیشہ ملتی تھی فاصلے سے
ملی مجھے تو برس کے بہکی حیا کی ناری وہ تان والی

0
62
ہم دیوانوں کی طرح بےوجہ ہنسا کرتے تھے
ہاتھ میں ہاتھ دیے رہ میں چلا کرتے تھے
میری چاہت میں کچھ لوگ سجا کرتے تھے
سج کے سینے سے میرے روز لگا کرتے تھے
دیکھ کے جن کو اب آنکھوں جلنے لگتی ہیں
جانے والے انہی پلکوں پہ رہا کرتے تھے

0
74
ہم نے سوچا ہی نہیں تیری وفا کے بارے
تو جو بچھڑا تو اس بات پہ سوچا ہم نے
وہ جو ہاتھوں میں تھا میری لکیروں کی طرح
مٹ گیا ایسے نہ ملا کتنا ہی کھوجا ہم نے
ہم نے ہر زخمِ جگر اس کو دکھایا لیکن
نا رکا وہ نہ رکا کتنا ہی روکا ہم نے

0
39
محبت کے سفر میں آپ میرا ساتھ دیں گے کیا
رزیلوں کے نگر میں آپ میرا ساتھ دیں گے کیا
جو موسم ہو بہاروں کا پرندے لوٹ آتے ہیں
خزاؤں کے خطر میں آپ میرا ساتھ دیں گے کیا
کوئی جگنو کوئی تارا نا کوئی چاند سا درشن
محبت کے بھنور میں آپ میرا ساتھ دیں گے کیا

112
تمہارا خال بھی کیا کیا کمال کرتا ہے
شبابِ حسن سے مجھکو حلال کرتا ہے
مجھے دکھا کے وہ جلوے اپنی قدرت کے
وہ اپنے حسن پہ کتنے سوال کرتا ہے
سیاہ رات میں ڈھل کر وہ جگنو بنتا ہے
نظر میں رہتا ہے دل میں دھمال کرتا ہے

0
72
دیکھنا تجھ کو بھی اور خود سے بھی جدا رکھنا
کیسے ممکن ہے روا تجھ کو پھر خدا رکھنا
دیکھنا تجھ کو تو پھر رہنا وجد میں اکثر
اپنی نظروں کے باغیچے میں پھر سجا رکھنا
چاند سا کہنا تجھے اور دور سے تکتے رہنا
دن کو سورج میں بھی پھر دل کو لگا رکھنا

0
59
تمہارے عشق پر لڑکی مجھے حیرانی ہوتی ہے
دکھے نا وہ تو آنکھوں میں ترے ویرانی ہوتی ہے
خیالِ یار سے دل میں ترے تابانی ہوتی ہے
تری آنکھوں کی لالی عشق میں ایمانی ہوتی ہے
مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ اک سلجھی ہوئی لڑکی
دیارِ عشق کے مکتب میں کیوں مستانی ہوتی ہے

0
66
چلو ایسا میں کرتا ہوں زمانے بھرکے سارے غم
کدو میں ڈھانپ کر اپنے وجودِ حبس کرتا ہوں
تمہاری چاہ کی خاطر میں خود کو بیچ کر جاناں
خودی کو مار کر اپنی میں سوئے جرس کرتا ہوں
اٹھا لوں کیا گری پگڑی لٹی عزت کو چوکھٹ سے
یا مجھ کو دان کردو گے سوالِ ترس کرتا ہوں

0
56
پاس آؤں تو وہ کہتا ہے میرے پاس نہ آ
دور ہو جاؤں تو کہتا ہے نباض ہے تو
ہاتھ پکڑوں تو وہ ضد کو بڑھا دیتا ہے
چھوڑ دوں ہاتھ تو کہتا ہے ناراض ہے تو
سر جھکا لوں تو نظر بھر کے تکتا بھی نہیں
موڑ لوں سمت تو کہتا ہے فیاض ہے تو

0
49
آنکھ مستی میں نظارے کا بھرم رکھتی ہے
سوچ ہستی میں ستارے کا بھرم رکھتی ہے
جانے والے جو چھپانا ہے چھپا لے لیکن
خوشبو کُرتی میں دلارے کا بھرم رکھتی ہے
رنگ گالوں کا کسی سنگ نے کیا لال کیا
لالی بستی میں اشارے کا بھرم رکھتی ہے

0
56
تُو اس کو ڈھونڈ فلک میں رنگیں ستاروں میں
ملے گا دل کے چمن میں رنگیں بہاروں میں
جو اس کو ڈھونڈنے نکلا تو جگنوؤں نے کہا
وہ مندروں میں ملے گا نا اجڑی غاروں میں
تو اس کو پائے گا دل کے کسی کونے میں
ملے گا دل کے چمن میں رنگیں بہاروں میں

0
49
بیٹھ کر پاس مری جان مجھے کہتی ہے
تری پرچھائی سدا پاس مجھے دکھتی ہے
سر کو کاندھے پہ لگا کے میں اسے کہتا ہوں
تیری یادوں کی خلش روز مجھے چبھتی ہے
بیٹھ کر پاس مری جان مجھے کہتی ہے
ترے ہونٹوں کی تپش دل میں مرے رہتی ہے

0
51
بات کرتے ہوئے اتنا تُو لرزتی کیوں ہو
کاٹ کر ہونٹ بتا سر کو جھٹکتی کیوں ہو
دیکھ کر مجھ کو بتا اتنا نکھرتی کیوں ہو
دیکھ لوں غیر کو گر اس پہ بگڑتی کیوں ہو
گم نہ ہوجاؤں کہیں ایسے پکڑتی کیوں ہو
مار ڈالو گی مجھے ایسے جکڑتی کیوں ہو

0
44
تجھ سے ملتے ہی سناتا ہے ترانے کیا کیا
دل یہ پاگل ہے بناتا ہے فسانے کیا کیا
تیرے ملنے پہ شکایت کوئی کرتا بھی نہیں
نہ ملے تُو تو لگاتا ہے نشانے کیا کیا
اپنی ہستی تو تری ذات سے تعمیر ہوئی
دل تجھے دیکھے تو مانگے ہے نہ جانے کیا کیا

0
38
وصل نعمت ہے تو پھر دل کا یہ چبھنا کیسا
دل میں پچھتاوا ہے کیوں دل کا یہ کڑھنا کیسا
سحر غم خوار ہے تو شمس بلکتا کیوں ہے
آنکھ پرنم ہے یہ کیوں دل کا یہ بجھنا کیسا
دل ہے گر تیرا تو پھر سوچ پہ پہرا کیسا
روز اشکوں سے مری سوچ کو پڑھنا کیسا

0
60
کوئی سوتا ہے تان کے دنیا کوئی طعنے پر جاگ جائے ہے
کلمہ پڑھتا ہے کوئی سولی پر کوئی رستے سے بھاگ جائے ہے
کوئی تنہا ہے سب میں ہو کر بھی کوئی بنتا ہے چاند محفل کا
پاپی دنیا میں تھوڑا جینے کو جوگی الاپتا راگ جائے ہے

0
46
سہیلیوں میں کھڑی وہ جدا سی لگتی ہے
خدا نہیں ہے مگر وہ خدا سی لگتی ہے
خدا سا کہنے سے کچھ لوگ روٹھ جائیں گے
مگر یہ سچ ہے مجھے وہ ہدیٰ سی لگتی ہے
عطا ہے وہ جو مری زندگی کا حاصل ہے
زمانے بھر میں مجھے وہ دعا سی لگتی ہے

0
106
ملایا ہاتھ جو تو نے کہا میں نے اجازت ہے
چھڑایا ہاتھ جو تو نے کہا میں نے اجازت ہے
کہا میں نے اجازت ہے محبت میں شرارت کی
چبایا ہاتھ جو تو نے کہا میں نے اجازت ہے
مٹایا تم نے مہندی کو کہا تم کو اجازت ہے
سجایا ہاتھ جو تو نے کہا میں نے اجازت ہے

0
50
میں ہوں صدائے مصطفیٰ میں ہوں امامِ حسینؓ
میں ہوں نوائے مصطفیٰ میں ہوں امامِ حسینؓ
میں ہوں ردائے مصطفیٰ میں ہوں امامِ حسینؓ
میں ہوں عطائے مصطفیٰ میں ہوں امامِ حسینؓ
میں ہوں وفائے مصطفیٰ میں ہوں امامِ حسینؓ
میں ہوں رضائے مصطفٰی میں ہوں امامِ حسینؓ

0
84
میں ہوں حسینی دل ہے خادم حسینؓ کا
کرتا ہے عشق میرا ماتم حسینؓ کا
رویا نہیں کبھی جو قتلِ حسینؓ پر
مجرم ہےمصطفیٰ کا آثم حسینؓ کا
لڑنا ہے گر تجھے جو شکلِ یزید سے
بننا پڑے گا تجھ کو لازم حسینؓ کا

0
71
میری نامہ بر، میری جانِ جاں یہ لکھا تھا تم نے شرط سے
میرا مرنا بھی تیرے عشق میں میرا جینا بھی تیرے ربط سے
میرا ہونا بھی تیرے نام سے میرا کھونا بھی تیرے ہجر سے
میرا ہنسنا بھی تیری ذات سے میرا رونا بھی تیرے ضبط سے
میرا سونا بھی تیرے ساتھ سے میرا کھانا بھی تیرے ہاتھ سے
میرا دکھنا بھی تیری آنکھ سے میرا سپنا بھی تیرے ارط سے

0
2
73
اس کے بگڑے ہوئے لہجے سے مجھے لگتا ہے
گھر کے بٹوارے پہ اب خون خرابہ ہوگا
باپ تو جا بھی چکا ایسا مجھے لگتا ہے
ماں کو رکھنے پہ بہت شور شرابہ ہوگا

0
55
یہی آس ہے تو جڑی رہے یہ چراغ ہے تو جلا رہے
جو خزاں بھی ہو تو مرے خدا یہ چمن تو یونہی کھلا رہے
مری ذات سے تری ذات کا جو ازن ہے وہ کبھی کم نہ ہو
مرے عشق کا مری چاہ کا جو شجر ہے یونہی ہرا رہے
اسی ارضِ پاک پہ کٹ مروں نہ یہ سر جھکے نہ یہ دل ڈرے
یہ فنا ہی میری بقا بنے عَلم اونچا اس کا سدا رہے

60
منجمد خون میں شعلہ سا سلگتا کیوں ہے
چارہ گر دیکھ ترا مجنوں تڑپتا کیوں ہے
اپنی رعنائی پہ اتنا تُو اکڑتا کیوں ہے
رنگ باتوں کا حسیں لہجہ بدلتا کیوں ہے
دل کا دریا بھی روانی میں کہیں رک سا گیا
پھر بتا آنکھوں میں دریا یہ ابھرتا کیوں ہے

0
52
جو حیاتِ تلخ سے رو پڑا وہی تیرا عاشقِ زار تھا
جو رفیق تھا جو عتیق تھا وہ جو زخمِ دل سے فگار تھا
دلِ مضطرب سے تھے آشنا جو رہے سدا مرے مہرباں
وہ جو پاس تھا تو سراب تھا جو وہ دور تھا تو سیار تھا
تمہیں کیا بتاؤں کہ کیا ہوا رگِ جاں پہ تیر جو آ لگا
نہ تو ہجر تھا نہ فراق تھا مرا دل تو اس پہ نثار تھا

0
2
124
وفا کی باتیں وفا کے قصے کہو گے تم جو تو دل دکھے گا
جفا کی باتیں جفا کے قصے کہو گے تم جو تو دل جلے گا
تمہیں سے منسوب ہیں جفائیں تمہیں سے منسوب ہیں خطائیں
خطا کی باتیں خطا کے قصے کہو گے تم جو تو دل بجھے گا
مجھے اٹھایا جو تم نے در سے بھٹک بھٹک کے بھٹک گیا میں
عطا کی باتیں عطا کے قصے کہو گے تم جو تو دل ڈرے گا

0
2
198
تُو نصاب ہے مرے عشق کا تجھے میں پڑھوں گا سکون سے
تُو کتاب ہے مرے بخت کی تجھے میں لکھوں گا سکون سے
تُو نقاب ہے مرے درد کا تُو مرے وجود کا ساز ہے
تُو گلابِ حسن کا روپ ہے تجھے میں چنوں گا سکون سے
تُو یقین ہے مری سوچ کا تُو خیال ہے مرے ربط کا
تُو شباب ہے مرے وصل کا تجھے میں تکوں گا سکون سے

0
265
انوار ترا، سرکار ترا دل روشن وہ سردار مرا
دلدار مرا، وہ یار مرا دل روشن وہ گلزار مرا
زردار مرا، زنگار مرا اس نگری کا اظہار مرا
پرکار مرا، پرخار مرا چت روشن وہ حقدار مرا
ازکار بھی وہ، افکار بھی وہ اس گلشن کی چہکار بھی وہ
اقرار مرا، وہ پیار مرا من روشن وہ گلدار مرا

0
68
ساحل پہ بیٹھ جاؤ مجھے دور جانا ہے
پیچھے نہ میرے آؤ مجھے دور جانا ہے
لگنے دو مجھ کو زخم رہِ عشق میں ابھی
رسنے دو میرے گھاؤ مجھے دور جانا ہے
لہروں کو زندگی سے شرابور ہونے دو
لگنے دو میرا بھاؤ مجھے دور جانا ہے

0
61
شورش ہے بزمِ عشق میں مہکی ہے یہ زمیں
ہوتا ہے میری آہ سے شہپر بھی دیدہ بیں
نجمِ جہاں سے آج بھی جلتا ہے گلستاں
آہو کی چشم زینتِ رونق ہے گریہ دیں
وحدت عیاں ہے ذرے میں سودائے جستجو
غنچہ ہے گل کا خار تو گل ہے ترا مکیں

146
چلو آؤ رکھ دیں اناؤں کو کسی اجنبی سی منڈیر پر
درِ یار عشق کو روک لیں پسِ پشت رکھ دیں خطاؤں کو
چلو آؤ باندھ لیں ہجر کو غمِ دلبری کے مقام سے
جہاں بات ہو مرے عشق کی پسِ مرگ رکھ دیں جفاؤں کو
چلو آؤ یاد کی دھند کو یوں بکھیریں اپنے وجود پر
کریں یاد چہرہ وہ دلربا کریں یاد اس کی وفاؤں کو

0
71
جو دل میں رہتے تو جان میری ہمیں نہ فکرِ ثواب ہوتی
نہ خواب آنکھوں میں سوتے جگتے نہ زندگی یوں عذاب ہوتی
ہوئی ہے الفت یوں تم سے ایسے کوئی پکارے خدا کو جیسے
نہ دل لگاتے نہ چوٹ کھاتے نہ فکرِ آخر خراب ہوتی
جو آپ کہتے بتاؤ مجھ کو صلہ بھی دو گے مری وفا کا
میں دل کو رکھتا ہتھیلیوں پر تو جان میری گلاب ہوتی

60
مرید بیچے مزار بیچا جو بچ گیا تو ثواب بیچا
عجب مداری ہیں پیر میرے جو بچ گیا تو عذاب بیچا
سیاہی بیچی جو تختیوں کی تو ٹاٹ چوکھٹ سکول بیچا
حروف بیچے علوم بیچے جو بچ گیا تو نصاب بیچا
معلموں کو فروخت کر کے معلمی کا شعور بیچا
فنون گر جو گلی میں آئے تو نام افضل کتاب بیچا

85
مرید بیچے مزار بیچا جو بچ گیا تو ثواب بیچا
عجب مداری ہیں پیر میرے جو بچ گیا تو عذاب بیچا
سیاہی بیچی جو تختیوں کی تو ٹاٹ چوکھٹ سکول بیچا
حروف بیچے علوم بیچے جو بچ گیا تو نصاب بیچا
معلموں کو فروخت کر کے معلمی کا شعور بیچا
فنون گر جو گلی میں آئے تو نام افضل کتاب بیچا

0
85
ترے ہونٹ کھلتے گلاب ہیں تری آنکھ محشرِ راز ہے
ترا حسن سازِ حیات ہے ترا مکھ وجود کا آز ہے
تری زلف شب کی ہے چاندنی ترا روپ رنگِ بہار ہے
ترا تل ہے گال کا تمتما ترا گال حسن کا ساز ہے
ترا لفظ لفظ ہے خاص تر تری بات عشق کی چاشنی
تری دلکشی ہے سرورِ جاں تری چال چال کا قاز ہے

0
201
رکی ہے سانس تُو آئے تو چل پڑے جاناں
بجھی ہے زیست تُو آئے تو دل جلے جاناں
رگوں میں خون کی گردش بھی شور کرتی ہے
گھٹی ہے چیخ تُو آئے تو غم دھلے جاناں
میں زہر پی جو چکا حکم تھا ترا جاناں
پھنسی ہے جان تُو آئے تو حل ملے جاناں

0
73
نغمہ جبریل سنا تو ازن ہوا باغِ ارم
جسمِ اطہر کو چناتو ازن ہوا باغِ ارم
خود کو بےرنگ کیا تو ازن ہوا باغِ ارم
خود میں انوار دکھا تو ازن ہوا باغِ ارم
مثلِ مضمون ہوا سجدہ ہوا ساز بجا
شوقِ بلبل جو چڑھا تو ازن ہوا باغِ ارم

0
115
بازو پکڑا جو مرے دل نے تری دھڑکن کا
تری دھڑکن نے مرے کان میں سرگوشی کی
سانس رکنے لگی جذبات کی تنہائی میں
نبض بڑھنے لگی تب عالمِ مدہوشی کی
آنکھ نے گال کے ہونٹوں پہ جو رکھا غازہ
ہوس بڑھنے لگی تب آنکھوں میں مے نوشی کی

0
49
بازو پکڑا جو مرے دل نے تری دھڑکن کا
تری دھڑکن نے مرے کان میں سرگوشی کی
سانس رکنے لگی جذبات کی تنہائی میں
نبض بڑھنے لگی تب عالمِ مدہوشی کی
آنکھ نے گال کے ہونٹوں پہ جو رکھا غازہ
حوس بڑھنے لگی تب آنکھوں میں مے نوشی کی

0
53
کتنے گرے اٹھا دیے تیرے نقاب نے
کتنے اٹھے جھکا دیے تیرے جواب نے
پلو کو تھام رکھا ہے ناز و ادا کے ساتھ
سنبھلے ہوئے گرا دیے تیرے حجاب نے
کاجل لگا لیا ہے جو آنکھوں میں یار نے
غازے کا رنگ پی لیا کالے گلاب نے

0
52
تمہیں کیا پتہ مری سوچ کا مرے عشق کا مرے پیر کا
جو تُو جان لے تو نا نام لے کسی لیلیٰ، مجنوں یا ہیر کا
تمہیں کیا پتہ مرے زخم کا مرے دردِ دل کا یا ہجر کا
جو تُو جان لے تو نا نام لے کسی جوگی، سنت، فقیر کا
تمہیں کیا پتہ مری رات کا مرے صبح و شام کے روگ کا
جو تُو جان لے تو نا نام لے کسی آنسو، اشک یا نیر کا

0
93
شعر لکھنا ہے تو ہستی کو مٹانا ہوگا
خود کے شاعر کو کئی بار رلانا ہوگا
داد ملتی ہے کہاں شعر کو لکھ رکھنے سے
اس زمانے میں اسے دف پہ بجانا ہوگا
داد کے واسطے کچھ دوست بھی اب لازم ہیں
داد لینی ہے تو پھر ہاتھ ملانا ہوگا

91
(خوار ہوئے ہم گلیوں گلیوں سر ٹیکے دیواروں سے)
بھیک ملی عزت والوں کو آج کے ٹھیکے داروں سے
رستہ رستہ نگری نگری آنکھیں دید کو ترس گئیں
کہنے کو یہ جنگل بیلے بھرے ہے میرے پیاروں سے
لہو کا رشتہ پھیکا لاگے پھیکن لاگن لوگ تمام
دل کا رشتہ دل پرچا لے دل میں بیٹھے یاروں سے

0
73
ہم نے سوچا ہی نہیں تیری وفا کے بارے
تو جو بچھڑا تو اس بات پہ سوچا ہم نے
وہ جو ہاتھوں میں تھا میری لکیروں کی طرح
مٹ گیا ایسے نہ ملا کتنا ہی کھوجا ہم نے
ہم نے ہر زخمِ جگر اس کو دکھایا لیکن
نا رکا وہ نہ رکا کتنا ہی روکا ہم نے

0
44
اجڑے ہوئے دیار کے اجڑے ہوئے مکیں
یہ شہرِ لامکاں ہے یا ہے شہرِ لا مکیں
عابد بھی گمشدہ ہے تو زاہد بھی ہے پرے
ایسی وبا چلی ہے کہ ڈرنے لگی زمیں
تیرے وجود سے ہی تو روشن ہے اسکا عکس
اور عکسِ حسنِ یارِ سے کتنا ہے وہ حسین

0
82
تیرے لیے تلاشے میں آسمان سات
مانی کسی زمیں نے میری نہ کوئی بات
روٹھا زمانہ سارا دشمن خدا ہوا
پکڑا جو تیرا پلو پکڑا جو تیرا ہات
کیسے گزاروں گا میں تجھ بن لعین دن
کیسے گزاروں گا میں تجھ بن یتیم رات

0
46
جذبے بیمار ہوں تو سجدے قضا ہوتے ہیں
لفظ بے کار ہوں تو چہرے سزا ہوتے ہیں
رشتے لاچار ہوں تو پہرے روا ہوتے ہیں
اپنے دلدار ہوں تو پاسِ وفا ہوتے ہیں
خوشے برباد ہوں تو راز خطا ہوتے ہیں
پودے خوش رنگ ہوں تو یادِ صبا ہوتے ہیں

0
124
ظفر پہ مائلِ دل میرا رختِ شام ہوا
ستم کشی کی اسیری میں سمتِ شام ہوا
فراقِ یار کی خوشبو نے شورِ جولاں کو
فشارِ ضعف میں ڈھالا تو رفتِ شام ہوا
جگر خراش ہوا دل تو بے مزہ نہ ہوا
چٹک کے غنچہِ دل میرا دستِ شام ہوا

0
103
جو میرے ساتھ چلنا تھا مجھے اپنا بنا لیتے
بنا کر نقش جھومر کا جبیں پر تم سجا لیتے
مجھے بانہوں میں بھرتے اور سینے سے لگا لیتے
بناتے پھول جو مجھ کو تو بالوں میں لگا لیتے
مجھے پوروں میں اپنی مشک کی مانند بھر لیتے
لگاتے ہاتھ ہونٹوں پر تو سانسوں میں بسا لیتے

0
67
میں قتیل ہوں میں فراز ہوں میں تو اپنے عہد کا خواب ہوں
میں تو میر ہوں میں نظیر ہوں میں ادب پہ رکھا گلاب ہوں
میں ارسطو ہوں میں ہی نقد ہوں میں ادب پہ اترا شہاب ہوں
جو قلم کو رکھتا ہے تیغ تر مجھے ملیے میں وہ عُقاب ہوں
میں ادیب ہوں میں نقیب ہوں میں ادب پہ رکھی صلیب ہوں
میں ہی حرف ہوں میں ہی لفظ بھی میں ادب پہ اتری کتاب ہوں

0
208
میری ہستی سے ہرگز نہ کنارہ کرنا
ڈوبتے لمحے کبھی مجھ کو نہ اشارہ کرنا
ڈھلتے سورج میری یاد دبے پاؤں سے
آ بھی جائے تو اس کا نہ نظارہ کرنا
خود ہی مرنا مگر مجھ سے نہ توقع رکھنا
رابطہ کرنا مگر مجھ سے نہ دوبارہ کرنا

0
143
اینٹ سے گارے سے نہ ہی کچھ قالینوں سے
گھر تو بنتا ہے میری جاں چند مکینوں سے
ہجر سے وصل سے ملنے کے چند مہینوں سے
کشتیاں ڈوب کے ملتی ہیں چند سفینوں سے
درد سے داغ سے غم کے چند قرینوں سے
میرا تو ربط ہے غم کے انہی دفینوں سے

0
70
تیری چاہت نے دکھائے کتنے خواب مجھے
ٹوٹے جب خواب ملے دکھ بھی بے حساب مجھے
بہا کے لے گئے آنکھوں کے یہ سیلاب مجھے
اب تو لگتا ہے مٹا دیں گے یہ عذاب مجھے
تیری آنکھوں کی قسم تم پر ہی تو سجتا ہے
دبا کے ہونٹوں کو اترا کے دینا خطاب مجھے

0
56
وفائیں بھی ضروری ہیں جفائیں بھی ضروری ہیں
مری جاں عشق میں تیرے سزائیں بھی ضروری ہیں
کبھی پردہ کبھی چلمن کبھی ہے دل لگی کوئی
تڑپنے سے بچھڑنے تک ادائیں بھی ضروری ہیں
پکارو گے بلاؤ گے ہمیں ڈھونڈو گے تم ہر سو
کسی کو پا کے کھونے کی خطائیں بھی ضروری ہیں

0
144
جہاں جہاں سے میں گزروں تجھے صدائیں دوں
میں تجھ کو یاد کروں تجھ کو میں دعائیں دوں
ملے پتہ جو مجھے یار کا تو پھر یارو
میں اس کے ہاتھوں کو چوموں اسے قبائیں دوں
میں حسرتوں کو کسی روز گھر میں دعوت دوں
میں ماروں باندھ کے سب کو انہیں سزائیں دوں

0
77
نظروں سے گِر گیا تو اُٹھایا نہیں گیا
مجھ سے وہ روٹھا شخص منایا نہیں گیا
اشکوں کو جس نے آنکھ کا زیور بنا دیا
آنکھوں کی چلمنوں سے ہٹایا نہیں گیا
ٹوٹا جو ایک بار تو حسرت ہوئی تمام
مجھ سے دوبارہ دل بھی لگایا نہیں گیا

0
71
اوڑھ کر شال تری یادوں کی گھر جاتا ہوں
گھر نہ جاؤں تو سرِ راہ بکھر جاتا ہوں
سرد موسم کے تھپیڑوں سے جو نخلِ گل پر
چوٹ پڑتی ہے تو کچھ اور سنور جاتا ہوں
حسن والوں کا تو دیتا ہوں ہمیشہ پہرہ
وادیِ عشق میں بےلوث اتر جاتا ہوں

0
65
مجھے اوزان سمجھا دو ادھورا اک میں شاعر ہوں
مجھے بحروں میں لپٹا دو ادھورا اک میں شاعر ہوں
مجھے بس اتنا سمجھا دو یہ ارکانِ غزل کیا ہیں
مجھے قانون بتلا دو ادھورا اک میں شاعر ہوں
مجھے حافی ہی سمجھو تم مجھے زریون تم سمجھو
مجھے محفل میں بھجوا دو ادھورا اک میں شاعر ہوں

0
110
(یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا)
یوں ہی شکوہ بڑھتا رہتا جو تُو میرا یار ہوتا
ترے در کو چومتا میں ترے در کا ہوکے رہتا
تجھے اوڑھتا میں خود پر جو تُو بے قرار ہوتا
تری سانس بن کے جیتا ترے ہجر میں تڑپتا
جو تُو مجھ سے روٹھ جاتا میں بےاختیار ہوتا

0
83
کنواں بھرا ہے مگر یارو اس میں پانی نہیں
علم گری ہے عجب جس میں کوئی معنی نہیں
عجیب لفظ ہیں جن سے حروف جلتے ہیں
عجب کتاب ہے جس میں کوئی روانی نہیں
خرد کو دیکھ کے اکثر گمان ہوتا ہے
ضعیف عقل ہے جسکی کسی نے مانی نہیں

0
74
فتور نظریں، گماش عادت، سحاب نیناں، رقیب قربت
حسین چہرہ، نگین رنگت، سبین خوشبو، نصیب قربت
یقین کامل، طریق افضل، مزاج راحت، حیات افضل
سفیرِ چاہت، کتابِ الفت، سرورِ نغمہ، نجیب قربت
کمرستائش ،مثال ابرو ، ذقن قیامت، بدن کرشمہ
وجود چندا، قدم مبارک، حسن جمالی، عجیب قربت

0
467
مرے ہم نوا یہ جو درد ہے یہ عطا ہے میرے رفیق کی
نہ میں جی سکوں نہ میں مرسکوں یہ دعا ہے میرے شفیق کی
یہ جو چاند ہے ترا عکس ہے یہ جو نور ہے تری روشنی
تُو ہی حور ہے تُو ہی اپسرا تو مثال رشکِ عقیق کی
ترے در پہ جھکنے کو جی کرے مرا دل تو تجھ کو خدا کہے
تُو خدائے دل تو خدائے جاں تُو صدا ہے دلِ رقیق کی

0
112
ہجر میں مرتے ہیں نہ وصالوں سے مریں گے
ہم جیسے خطا کار بہانوں سے مریں گے
عشق میں مرتے ہیں نہ وچھوڑوں سے مریں گے
ہم جیسے جہاں والے رواجوں سے مریں گے
علم سے مرتے ہیں نہ جوابوں سے مریں گے
ہم جیسے کئی لوگ سوالوں سے مریں گے

0
53
رنگ کالا تھا میرے بالوں کا
چاندی اتری ہے تیرے جانے سے
زرد موسم تھا دل کے پتوں کا
سبزہ اترا ہے تیرے آنے سے
غزل اتری ہے تیری سنگت میں
مصرعہ سوجھا ہے تیرے گانے سے

0
111
گداز تکیہ تمہاری بانہیں نشیلی آنکھیں لسانِ قدرت
خطوط شب کے لٹیں ہیں تیری بدن کی خوشبو زبانِ قدرت
قدم اٹھانا غضب قیامت، کمر کا حلقہ مقامِ حیرت
صراحی گردن سوالِ رفعت وجود رقصاں اڑانِ قدرت
جمال تیرا کرشمہ رب کا حسین رنگت عطائے فطرت
لبوں کی لالی گلاب جیسی بھنور ذقن کا مکان قدرت

0
139
سنوار دے جو نکھار دے جو اسی کو سفرِ تُو لام لینا
جلا دے دل کو بجھا دے دل کو نہ عاشقی کا وہ بام لینا
تمہارے ہاتھوں پہ دل بنانا بنا کے دل کو لگانا دل پر
اسی پہ ہنسنا اسی پہ رونا اسی سے ہستی کی شام لینا
نظر ملانا مجھے ستانا پلٹ کے تیرا نظر چرانا
نظر چرا کے دوبارہ تکنا دوبارہ تک کے سلام لینا

0
239
قید میں رسموں کی جکڑے ہیں دیوانے کیسے
بند ہیں خواب کواڑوں میں بیگانے کیسے
دل یہ کہتا ہے تیرے ساتھ ہی چلتا جاؤں
وصل کے آتے ہیں مجھے یاد زمانے کیسے
ہجر میں کون تجھے پہلی سی محبت بانٹے
جائے گا دل یہ بھلا تجھ کو منانے کیسے

0
74
اس عید پہ میری جانِ جاں میں گلے سے تجھ کو لگاؤں گا
ترا ماتھا چوم کے جاں میری تھوڑی مہندی بھی لگاؤں گا
اس عید پہ میری جانِ جاں جوڑا سرخ تجھے بھجواؤں گا
اس عید پہ میری جانِ جاں تیری ڈولی میں تو اٹھاؤں گا
میں بنوں گا مجنوں پیار میں تمہیں ملنے میں چلا آؤں گا
اس عید پہ میری جانِ جاں میں تو صدقے واری بھی جاؤں گا

0
192
جو کتابِ عشق کا باب تھا وہ جلا دیا تو بھلا دیا
وہ جو سات رنگا گلاب تھا وہ ہٹا دیا تو بھلا دیا
مجھے یاد تھا جو کتاب سا جو زبر سے زیر کا پیش تھا
جو سیاق سے تھا سباق تک وہ مٹا دیا تو بھلا دیا
جسے پڑھتے پڑھتے الجھ گئی مری زندگی بھی حساب سی
جو سوال سے تھا جواب تک وہ بتا دیا تو بھلا دیا

0
77