ماضی پہ جمی کائی ، ہیں حال پہ کچھ جالے
اس راہِ مقدر میں کھلتے ہی نہیں تالے
کیا اُس کو کہوں میں اب ناکارہ مصور تھا
آنکھوں میں مری جس نے کشکول بنا ڈالے
بیٹے نے دیا طعنہ اس باپ کو جس نے تو
جوتوں کہ جگہ پہنے محنت کے پھٹے چھالے
جس عہد میں ہو پیسہ جینے کی علامت پھر
وہ دور بھلا کیسے انساں کو یہاں پالے
جس گھر کا جواں بیٹا مر جائے سیاست میں
اس در کی فضاؤں سے جاتے ہی نہیں نالے
آبادی کے چکر میں بربادی دِکھی لیکن
تھا عشق بڑھاپے کا اب کون بھلا ٹالے

0
12