حسرتِ آب میں پایاب سے مر جاتے ہیں
ہم زمیں دوز تو سیلاب سے مر جاتے ہیں
بچ بھی جائیں جو اگر آفتِ دنیاوی سے
روز محشر ترے گرداب سے مر جاتے ہیں
خشک سالی کے کفن اوڑھ کے اکثر ہم تو
رکتے چلتے ہوئے بیتاب سے مر جاتے ہیں
شک کی دیمک میں سسکتے ہوئے آزردہ سے
رشتے احساس کے نایاب سے مر جاتے ہیں
کتنی آسانی سے القاب لگا لیتے ہیں لوگ
ہم قلم کار تو آداب سے مر جاتے ہیں
دشت سے عشق نبھانے کی سزا پاتے ہوئے
ہم طلب گار تو بے خواب سے مر جاتے ہیں
ٹی وی سرکار دکھاتی ہے بدن نچڑے سے
اجڑے غم خوار تو غرقاب سے مر جاتے ہیں

31