جیسے پیتل پہ لکھے لفظ ہیں لگتے زر سے
ویسے کچھ لوگ حسیں لگتے ہیں دنیا بھر سے
دوست آتے ہیں مرے پاس دلاسا دینے
جیسے رخصت کیا جاتا ہے کسی کو گھر سے
جیسے احساس کے مرنے پہ زمانہ روئے
جیسے بینائی کی میت کو اجالا ترسے
جیسے ساحل پہ پڑی ریت پہ پانی ٹھہرے
جیسے دن رات میں ڈوبے تو سیاہی برسے
جیسے ٹکڑوں کا تمنائی سرِ عام لڑے
جیسے آتی ہو صدا بھیک کی اپنے در سے
جیسے رخسار پہ جھریوں سے بھرا ہاتھ پھرے
جیسے دل دل سے ملے مل کے کٹے پھر دھرسے
جیسے گمنام سپاہی کی شہادت پہ کبھی
چھپ کے جاتی ہے خبر گھر میں مکیں کے ڈر سے
جیسے روپوش مہاجر کو پکارے مالک
جیسے بدنام حیا کھینچ کے پھینکے سر سے

0
10