گلہ نہیں کہ مرا آسماں پہ کوئی نہیں
زمیں ہے عشق کی عاشق یہاں پہ کوئی نہیں
یہ کس کے گھر کا پتہ دے کے تو ہوا غائب
عجب ہے بھیڑ جہاں اور وہاں پہ کوئی نہیں
وہ ساعتوں میں رکی سوچ کا مسافر ہے
سمجھ میں رہتا ہے لیکن گماں پہ کوئی نہیں
یہ فرصتوں میں ڈھلا روپ اس کا دھوکہ ہے
جو ساتھ رہتا ہے لیکن نشاں پہ کوئی نہیں
چھپا ہے کون بدن چھوڑ کر اندھیرے میں
گلی میں لاش پڑی ہے مکاں پہ کوئی نہیں
دھواں دھواں سا ہے اس کا خیال باطن میں
وہ دل میں رہتا ہے لیکن زباں پہ کوئی نہیں
عجیب وقت نے کھایا ہے پلٹا اب کے تو
مچی ہے لُوٹ یہاں اور دکاں پہ کوئی نہیں
یہ کس نے تیر چلایا ہے آفتاب میاں
لگا بھی دل کو ہے لیکن کماں پہ کوئی نہیں

0
13