میں سچ کی لاش سے لپٹا ہوا فسانہ ہوں
میں بے خودی کے نشیمن کا اک ترانہ ہوں
میں جاچکا ہوں مگر یاد تجھ کو اتنا رہے
میں زندگی کے جہاں میں کھڑا زمانہ ہوں
مری لحد کے دریچے سے ہوگی صبح نئی
میں انقلاب کی آمد کا اک بہانہ ہوں
میں دوستوں کی کہانی میں مر نہیں سکتا
میں ان کے پیار میں بکھرا ہوا خزانہ ہوں
وہ کون تھا جو مری زندگی سے خائف تھا
اسی کے بغض کی گولی کا میں نشانہ ہوں
میں کاسہ لیسوں کی نگری سے دُور دُور رہا
میں زندگی کے سفر میں سدا یگانہ ہوں
میں سچ کی آنچ میں پگھلا ہوا ہوں نغمہ کوئی
میں حق سے جانچ میں ڈوبا ہوا دہانہ ہوں

0
60