شاہراہوں پہ میری تنہائی
خوب بھٹکی تو میری کہلائی
روز آئینہ ٹوٹ جاتا ہے
روز ہوتی ہے میری رسوائی
ساتھ میرے ہمیشہ رہتے ہیں
سایہ تیرا یہ تیری پرچھائی
اس نے آنکھیں کھروچ کر میری
سب میں بانٹی ہے میری بینائی
لاش میری پہ رقص کرتے ہوئے
غم میں ڈوبی ہوئی ہے شہنائی
دنیا خود سے حسین لگنے لگے
تم پلا دو نا جامِ مینائی
اس کا جھمکا قریب آنے لگا
میں نے چوڑی جو اس کو پہنائی
نام میرا لبوں پہ آنے سے
کوئی کلی کہیں پہ مرجھائی
ذکرِ یار پر ابھی یارو
تھوڑا کھوئی وہ تھوڑا شرمائی

0
31