عشق اقرار میں ڈوبے تو کہانی مانگے
جیسے صحرا میں بھٹکتا ہوا پانی مانگے
دل فسوں ساز مہکنے کو ترستا جائے
گویا وہ عشق میں اشکوں کی روانی مانگے
حسن دھوکہ ہے کسی آنکھ کی بینائی کا
عشق دریا ہے نگلنے کو جوانی مانگے
یار کا روگ کسی یاد میں ڈھلتا جائے
یاد کا ربط وہی شوخ دوانی مانگے
ہجر مانگے ہے وہی دن جو ترے ساتھ کٹے
آنکھ غم خوار وہی شام سہانی مانگے
سوچ سولی پہ چڑھی اندھی عقیدت اکثر
جہل کردار سے عظمت کی نشانی مانگے
ہوگئ مات جسے وہ ہی تو اب ہر لمحہ
ہار سے جیت کی تربت کے معانی مانگے

0
67