گزرے موسم کا چلن دل سے مرے گویا ہے
تجھ کو کھو کر بھی کہاں دل نے تجھے کھویا ہے
ضبط کے اشک دبائے ہیں ترے ہونے پر
چاند ہجرت کے مہینوں میں بہت رویا ہے
ہر گھڑی سوچ کو باندھا ہے تری یادوں سے
ہر گھڑی یاد کو اشکوں سے تری دھویا ہے
وصل کی چاہ میں دیکھے ہیں زمانے کتنے
کتنی صدیوں سے یہ مجنوں نہ ترا سویا ہے
کس نے سازش کی زمینوں پہ ہیں کاٹی فصلیں
زہر کا بیج بتا کس نے یہاں بویا ہے
ہم نے بیلوں کو نہیں باندھا زرا غور کرو
رزق نے باندھ کے انساں کو یہاں جویا ہے

0
64