سیاہ رات کے چُنگل سے گو نہیں چُھوٹا |
گماں یہی ہے وہ قید میں نہیں ٹُوٹا |
خلا سے گر نہیں اترے تو پھر بتاؤ مجھے |
وطن کی لاج کو کس نے قدم قدم لُوٹا |
یہ کس کے حکم سے انصاف مر رہا ہے یہاں |
یہ سچ کی لاش پہ بیٹھا ہے کون سا جُھوٹا |
وہ جس کا وعدہ کیا تھا فصیح سوچوں نے |
زمیں کی گود سے وہ نور کیوں نہیں پُھوٹا |
ملیں مجھے جو اس دیس کے بڑے پوچھوں |
مزاجِ یار بتا رہتا ہے یہ کیوں روٹھا |
دکھا کے خواب ترقی کا سب سیانوں نے |
گلے لگا کے پھر عمر بھر ہمیں کُوٹا |
یقین، مان سبھی چُھٹ گئے اجالے میں |
تمہارا ساتھ مگر یاد سے نہیں چُھوٹا |
معلومات