رکتی سانسوں پہ سرِ شام تڑپنا کیسا
زندہ لاشوں کا سرِ عام یہ دھرنا کیسا
میں کلا کار ہوں غربت کی جہاں سازی کا
میری لرزش میں چھپی بھوک پہ ہنسنا کیسا
روز مرتا ہوں زمانے کی اداکاری سے
میری رنگت میں بسی زردی سے ڈرنا کیسا
جس کو چہرے پہ پڑی گرد سے ڈر لگتا ہو
اس کا آنکھوں کی گھٹی چیخ سے لڑنا کیسا
ایسا انساں جو بنے غیر کی چوکھٹ کا نشاں
اس کو پلکوں کے جھروکوں میں یوں رکھنا کیسا
جب کہ افکار تری بھوک مٹا سکتے نہیں
پھر بتا سوچ کی سولی پہ یہ چڑھنا کیسا
جس کی دیوار ہو سہمی کہ کہیں گر نہ پڑے
اس کا بارش کی فضا سے یوں لپٹنا کیسا
جس کو معلوم نہیں حال ترا کیسا ہے
اس کی خاطر تُو بتا روز یہ مرنا کیسا

0
12