میں تیری کہانی میں سدا رہ نہیں سکتا
جیسے تُو جوانی میں سدا رہ نہیں سکتا
میں رہ نہیں سکتا سدا موجوں کے سفر میں
دریا ہوں روانی میں سدا رہ نہیں سکتا
چپ چاپ نکل جاؤں گا میں دشتِ خرد سے
میں نقل مکانی میں سدا رہ نہیں سکتا
مانگے ہوئے جیون کی دلدوز صدا پر
ماضی کی نشانی میں سدا رہ نہیں سکتا
باسی ہوں کڑی دھوپ کا جلنا ہے مرا کام
میں شام سہانی میں سدا رہ نہیں سکتا
بےکار سے الفاظ کا بےجوڑ بشر ہوں
مہمل ہوں معانی میں سدا رہ نہیں سکتا

0
64