ستم گر کیا کیا تُو نے بصارت چھین لی ہم سے |
کٹورا دے دیا ہم کو جسارت چھین لی ہم سے |
مری دھرتی کے ملا نے ہمیں بانٹا ہے کچھ ایسے |
کہ رسی توڑ کے سب کی بشارت چھین لی ہم سے |
مرے بچوں کی آزادی غلامی میں بدل ڈالی |
دیا تحفہ جو جدت کا حرارت چھین لی ہم سے |
مرے قاتل وہی ٹھہرے جو مجرم تھے زمانے کے |
اندھیرا بانٹ کر سب میں زیارت چھین لی ہم سے |
زمانے کیا کیا تُو نے معلم پیشہ ور ٹھہرا |
بنا پیسے کا وہ چربا مہارت چھین لی ہم سے |
وہ جس نے علم سے اپنے بدلنا تھا زمانے کو |
علم بیچا وہ خود بدلا سفارت چھین لی ہم سے |
ادیبوں نے ادیبوں کو نچایا اپنے کوٹھوں پر |
کیا برباد شعروں کو عبارت چھین لی ہم سے |
یہاں بولو گے گر تم سچ تو یارو مارے جاؤ گے |
یہاں جھوٹوں نے سچ پوچھو طہارت چھین لی ہم سے |
معلومات