| شک میں جکڑے سے سوالات کہاں جانتے ہیں |
| عشق والے یہ خرافات کہاں جانتے ہیں |
| آپ واقف ہیں مرے دوست! حسیں لفظوں سے |
| بدلے لہجوں کی کرامات کہاں جانتے ہیں |
| آپ نے دیکھا ہے دریا کو مگن بہتے ہوئے |
| اس میں ڈوبے جو مضافات کہاں جانتے ہیں |
| جب وہ بچھڑے گا تو سوچوں کا بھنور کہتا ہے |
| اپنی ہوگی بھی ملاقات کہاں جانتے ہیں |
| آپ نے جس کو بنا رکھا ہے بھولا بھالا |
| اس کی مستی کے کمالات کہاں جانتے ہیں |
| غم کی اینٹوں سے مکاں اپنا بنانے والے |
| رسمِ الفت کے مزارات کہاں جانتے ہیں |
| جن کو بس دھند میں لپٹے سے بدن دکھتے ہوں |
| حسنِ وحشی کے مقامات کہاں جانتے ہیں |
| ہم تو اک تل پہ ہی بس خود کو فنا کر بیٹھے |
| اور کتنے ہیں جمالات کہاں جانتے ہیں |
| مانگ لیتے ہیں بھروسے پہ کہ وہ دے دے گا |
| ہم خطا کار مناجات کہاں جانتے ہیں |
معلومات