ہجر ایسا ہے کہ ہر اشک صدا دیتا ہے
درد ایسا ہے کہ ہر رگ سے نوا آتی ہے
دل یہ کہتا ہے زمانے کو بتا دو لیکن
صبر کی چیخ مرے دل کو دبا آتی ہے
ضبط کی ناؤ پہ رکھا ہوا ہے وعدہ کوئی
وصل کی کوکھ سے حسرت کی ہوا آتی ہے
ربط کے چاند سے پھیلا ہوا ہے سناٹا
یاد کے دشت سے تنہائی روا آتی ہے
زخم سل کر بھی مری جان کہاں سلتے ہیں
درد بڑھ جاتا ہے جو تجھ سے دوا آتی ہے

0
49