جو حیاتِ تلخ سے رو پڑا وہی تیرا عاشقِ زار تھا
جو رفیق تھا جو عتیق تھا وہ جو زخمِ دل سے فگار تھا
دلِ مضطرب سے تھے آشنا جو رہے سدا مرے مہرباں
وہ جو پاس تھا تو سراب تھا جو وہ دور تھا تو سیار تھا
تمہیں کیا بتاؤں کہ کیا ہوا رگِ جاں پہ تیر جو آ لگا
نہ تو ہجر تھا نہ فراق تھا مرا دل تو اس پہ نثار تھا
جو لہو ہوا مرا خستہ دل تو کہاں کہاں سے لہو بہا
نہ حبیب تھا نہ شکیب تھا وہ تو بحر و بر کا غبار تھا
مجھے کیا ہوا کہ میں کھو گیا تری چشمِ تر سا میں ہو گیا
نہ ہی سوزِ جاں کی تھی جستجو نہ طبیبِ من کی پکار تھا
نہ ہی سوگ تھا نہ ہی روگ تھا وہ تو زندگی کا بروگ تھا
نہ ہی عشق تھا نہ خیال تھا مرے دل میں اسکا مزار تھا
جو ملے وہ تجھ کو دیار میں کبھی زندگی کے حصار میں
تو یہ کہنا لوٹ کے دیکھ لے جو تری نظر کا شکار تھا

0
2
125
کیا کہنے وااااہ جناب

0
بہت شکریہ جناب

0