شوقِ منزل بھی نہیں وصل کا موسم بھی نہیں
کون اترا ہے وحی لے کے تری سوچوں کی
تیرنا ہم کو بھی آتا ہے مگر اب کے تو
ہے الگ بات تری عشق چڑھی موجوں کی
مجھ کو دو راہے پہ لاتے ہو عجب پوچھتے ہو
لالی گالوں سے زیادہ ہے بتا ہونٹوں کی
کیسا ہم دم ہے ترے نام پہ رو دیتا ہے
ہنستا رہتا تھا جو شکلوں پہ کبھی روتوں کی
پھول مرجھا سا گیا اس کا حسد بڑھنے لگا
کردی گر بات کسی نے بھی ترے ہونٹوں کی
گھر کی دیواریں ڈری سہمی فضا دیکھتی ہیں
اپنے آنگن سے جو اٹھتی ہے صدا چھوٹوں کی

0
11