چاند پلکوں پہ لیے دھوپ کنارہ کرتے
جلتے موسم کی فضا کیسے گوارہ کرتے
کھینچ لاتے کسی بادل کو برسنے کے لیے
وہ جو حدت میں کھڑے ہم کو اشارہ کرتے
ہم کڑی دھوپ کو چھاؤں کا سہارا دیتے
بجھتے سورج کا سرِ عام نظارہ کرتے
ہالہ آنکھوں کے فلک سے تجھے تکتا رہتا
ہم تجھے چاند کی سنگت میں ستارہ کرتے
ہم نہ ہوتے کبھی نادم نہ ہی شکوہ کرتے
عشق غلطی ہے تو یہ غلطی دوبارہ کرتے
ہم ترے نام کو سنتے ہی بھڑک سے جاتے
ہم ترے نام کو جل جل کے شرارہ کرتے
ہم نے دنیا میں ہی جنت کا مزہ لوٹ لیا
ہم ترے ساتھ نہ ہوتے تو خسارہ کرتے

18