| اونیاں کل اڈیاں رگڑو گے |
| یارو جنیاں گالاں کڈو گے |
| سچ تلواراں توں نیئں جے ڈردا |
| پھیلے گا اے جناں اینوں وڈو گے |
| سچائی دے بد تر ویریو |
| لگدا مر کے جان چھڈو گے |
| آج کل پابندی لگی ہے سلام اور آدابوں پر |
| یہ عَدُو تو یارو جھنجلا رہا ہے فتح یابوں پر |
| میرے اللہ تیری محبت کے متوالوں کی ہو خیر |
| مفتیوں اور مولویوں کا قبضہ ہے اب محرابوں پر |
| ظالموں کے ظلم و ستم پر سبھی عاشق کہتے ہیں |
| لگتا ہے ہم کو جیسے شبنم گرے ہے گُلابوں پر |
| زندگی کو ہنستے روتے میں نے جیا ہے |
| وقت سے کوئی نہ گلہ میں نے کیا ہے |
| زیست ہوئی یہ تمام کیسے نہ پوچھو |
| عاشقی میں خوں جگر کا میں نے پیا ہے |
| اس حسیں سے ہی لپٹنے کی تَمَنّا میں |
| ہر مصیبت پر ہونٹوں کو میں نے سیا ہے |
| ہر تھاں ہی جہالت دے کھوبے نیں |
| چوہاں پاسے ہی دسدے ٹوبے نیں |
| گجیاں چوٹاں ادھ مئوا کر دتا |
| تے پھلاں نے وی کنڈے چوبھے نیں |
| نفرتاں دے دریاواں وچ ملاں |
| بندے وٹیاں وانگ ہی ڈوبے نیں |
| لب جاں بَخش اب جاں بلب ہو گئے ہیں |
| ارماں سب گہری نیند سو گئے ہیں |
| سفرِ زیست میں مرے کیا کیا |
| ہم نوا یار دوست کھو گئے ہیں |
| مجھے ان سے گلہ نہیں ہے کوئی |
| اپنے تھے اب جو غیر ہو گئے ہیں |
| لوگوں کی بھیڑ میں تنہائی بہت |
| سجن اب کوئی نہیں بھائی بہت |
| ہے توانا ئی علم میں بھی مگر |
| ہے چا ہِ جَہل کی گہرائی بہت |
| مرے پیارے خدا ان کو تو دھو دے |
| جن دلوں پر جمی ہے کاءی بہت |