| محبت ہے تو پھر یہ دوریاں کیسی |
| ہیں حائل وصل میں مجبوریاں کیسی |
| ہے وصلِ یار ہی تو انتہائے عشق |
| لگیں ناں پار جو وہ کشتیاں کیسی |
| جہاں نفرت ہی بکتی تھی ذرا دیکھو |
| بھری کانٹوں سے ہے وہ اب دُکاں کیسی |
| خدا سے جب محبت ہے تو پھر صاحب |
| بتوں کے ساتھ ہیں بدمستیاں کیسی |
| کیا نا تزکیہ جو نفس کا لوگو ! |
| نماز و حجّ و تسبیح و اذاں کیسی |
| محبّت درد بھی ہے اور مرہم بھی |
| تو اِن دونوں میں ہیں بے مِہریاں کیسی |
| ذرا سا شائبہ شک کا جو دل میں ہے |
| تو پھر سجدوں میں ہیں پُرجوشیاں کیسی |
| وفا کا نام تو لیتے حسَن ہیں سب |
| پڑے جب وقت تو لاچاریاں کیسی |
معلومات