| شہرِ دلبراں میں جو عزت نہیں تو کچھ بھی نہیں |
| جو دلوں میں پیار کی حدت نہیں تو کچھ بھی نہیں |
| ہاں بہت سی لذتیں آسائشوں میں بھی ہیں مگر |
| جب عبادتوں میں ہی لذت نہیں تو کچھ بھی نہیں |
| اوروں کے گناہوں کا پرچار کرنے والو سنو |
| معصیت پر اپنی ندامت نہیں تو کچھ بھی نہیں |
| کٹھڑی تو علوم کی سر پر اٹھا رکھی ہے مگر |
| عالمو سنو جو فراست نہیں تو کچھ بھی نہیں |
| یاد رکھنا بات یہ بھی چلتے پھرتے تم اے حسن |
| ایماں کی دلوں میں حرارت نہیں تو کچھ بھی نہیں |
معلومات