| وہ ظالم تھکا ناں جفا کرتے کرتے |
| مگر تھک گیا میں وفا کرتے کرتے |
| وہ شکووں کے انبار تھا ساتھ لایا |
| مگر رہ گیا میں گلہ کرتے کرتے |
| منافق نئے دور کے بھی تو صاحب |
| تھکے کب ہیں کارِ ریا کرتے کرتے |
| جھلستے رہیں گے سدا دشمنِ حقّ |
| اُجالوں کا یوں سامنا کرتے کرتے |
| محبت ملے ہے تو کیسے ملے ہے |
| ہوئے بوڑھے ہم تجربہ کرتے کرتے |
| بہتر ہیں جو رازِ حق پا گئے ہیں |
| محبّت کا طے مرحلہ کرتے کرتے |
| حسن عرش کو بھی ہلا دیں گے آخر |
| جو آنسو بہیں گے دعا کرتے کرتے |
معلومات