Circle Image

محسن رضا

@Mr512

میں دن بہت ہنسی خوشی گزارتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں مجھ پہ رات قیامت ہوگی۔ اور اس قیامت کے حساب کتاب سے پہلے میں ہر روز ایک زندگی جیتا ہوں جس کا اختتام میرے سونے پر ہوتا ہے۔ اور ہر صبح مجھے ایک اور نئی زندگی جینے کا احساس دلاتی ہے۔ میرا اپنا ہی لکھا ہوا ایک شعر ہے کہ قیامت کٹ گئی ہےاذیت کٹ رہی ہے۔ 

0
15
یہ جوانی تو رائیگانی ہے
ایک مدت ہے جو بِتانی ہے
مختصر سا مرا خلاصہ ہے
مختصر سی مری کہانی ہے
خوبرو اختیار ہے کس کا
ایک نطفے کی مہربانی ہے

0
7
یہ کس نے کہہ دیا تم سے
دسمبر اب نہیں برسا
ذرا دل جھانک کر دیکھو
دسمبر کھل کے برسا ہے
کسی کی یاد کو لے کر
کسی فریاد کو لے کر

0
4
مجھ کو محسوس ہو رہا ہے یوں
اوڑھ لوں روپ ایک تاجر کا
غم شناسا بنوں محبت کا
کوئی آئے تو بے قرار نہ ہوں
کوئی جائے تو خاکسار نہ ہوں
اشک آئے تو طار طار نہ ہوں

0
4
ہیرا کباڑ کی دکان میں بکے تو قیمت کوڑی لگتی ہے۔ طالبِ دعا

0
12
قیامت کٹ گئی ہے
اذیت کٹ رہی ہے
مرے آنگن کی رونق
کہیں پر بٹ رہی ہے
زباں سے ڈرنے والی
چٹاں پر ڈٹ رہی ہے

0
1
19
اس نے جب جینے کا سوچا
دل ہی دل میں کیا کچھ کھینچا
عمر گزار کے بیٹھی تھی وہ
سب کچھ ہار کے بیٹھی تھی وہ
اب وہ خیر کہاں ہوگی اور
اب وہ سحر کہاں ہوگی اور

0
8
محسن
ہمم
کل عید ہے
اچھا
کیا اچھا؟
قربانی کر رہے ہو؟

0
13
نہ رویا کرو میری یادوں کو لے کر
چلے جانے والا قسم دے گیا ہے
کیا ہے جو اس سے ہے سودا وفا کا
وہ سودا وفا کا بھی کم دے گیا ہے
بنایا تھا جس نے مرا آشیانہ
دلاسے میں مجھ کو وہ غم دے گیا ہے

7
52
میں نے اک مسیحا کو
درد جب سنایا تھا
آنکھ اس کی بوجھل تھی
رنگ اس کا پیلا تھا
سانس وہ نہ لے پائے
ہائے ہائے کرتا تھا

5
تم نے جیتا ہے ہر بار تمہیں کیا معلوم
ہارنے والے کے بھی دکھ غور طلب ہوتے ہیں
راہ گزر پہ کبھی دیکھا ہے کسی کاسے کو؟
اس میں پلنے کے بھی دکھ غور طلب ہوتے ہیں
تم سے بچھڑا ہوں تو احساس ہوا ہے مجھ کو
زندہ رہنے کے بھی دکھ غور طلب ہوتے ہیں

6
دور وابستگی میں ہم محسن
اس قدر اختیار کو بیٹھے
چاہے جانے کی آرزو میں ہم
کچھ گناہوں کو یوں ہی بو بیٹھے
اس قدر اب ہمیں ندامت ہے
رونے دھونے کا حق بھی کھو بیٹھے

4
مرے جذبات واپس لا سکیں گے
مجھے رسوائی سے بچا سکیں گے
مرے کوٹھے پہ رسوائی ملے گی
مرے کوٹھے پہ ڈٹ کے آ سکیں گے
زمانہ آپ پر ہنستا پھرے گا
زمانے میں مجھے اپنا سکیں گے

3
صحرا میں بھٹک جانا کسی لیلیٰ کی خاطر
ہر عاشق کا ممکن نہیں مجنوں ہو جانا

2
آج کی رات اس سے کیا مانگوں
جھولیاں بھر کے دے رہا ہو گا
وصل کی رات ہے یہ اس کے لیے
جو بھی مانگے اسے عطا کر دو
عرش والوں سے کہہ رہا ہو گا
آج کی رات کیسے کاٹے گا

1
قیامت کٹ گئی ہے
اذیت کٹ رہی ہے

1
جو خوف، خوف تھے بچپن کے میرے
وہ خوف عین جوانی میں آ کے لے ڈوبے

1
دو چار دن میں ہی یہ راز کھل گیا محسن
غریب حال کی جیتی ہوئی محبت کو
ذرا سی بھوک لگی اور سب تمام ہوا

10
ایک ہم ہیں کہ ہمنام بھی اچھا نہ لگے اور
ایک تم ہو زمانے میں بہت ناموں سے واقف

3
یہ بھی تقدیر کا مقدر ہے
اس کو پا کے ہی میں نے کھونا تھا
وہ تھا بادل برستی بارش کا
اس نے کیسے کسی کا ہونا تھا
اس سے شکوہ بھی ہے شکایت بھی
جس نے آنسو کو میرے دھونا تھا

7
بہاریں خزائیں وہ گرمی وہ سردی
وہ دھوپ اور چھاؤں وہ سورج وہ چندا
وہ لہریں وہ موجیں وہ دریا وہ ساگر
وہ صحرا وہ پربت ہوائیں گھٹائیں
وہ پھول اور شبنم وہ بارش وہ آندھی
وہ رنگین راتیں چمکتے وہ دن من

3
زندگی نے بہت رلایا ہے
کیا بنایا ہے کیا گنوایا ہے
دین دنیا سے ہو گیا غافل
جب سے اس کو دلہن بنایا ہے
آ مرے پاس تجھ کو بتلاؤں
مجھ پہ کس قدر اس کا سایہ ہے

4
رات کی بات نے کیا اثر کر دیا
ہونٹ ایسے ملائے کہ دل بھر دیا
تیرے کوچے سے نکلا تھا بےتاب میں
میری ہجرت کو تو نے مدھر کر دیا
آپ برسے تھے مجھ پر اچانک سے یوں
آپ کی اس ادا نے اثر کر دیا

7
وہ جو زندہ تھا مر گیا ہو گا
شہر سارا اجڑ گیا ہو گا
دیکھ کر مجھ کو ایسی حالت میں
کیسے معصوم ڈر گیا ہوگا
جو شجر سایہ دار تھا واحد
لگ رہا ہے سکڑ گیا ہوگا

7
آج کی رات ذرا میری رباعی سن لو
عین ممکن ہے کہ پھر مجھ کو اجازت نہ ملے
کُچھ خیالات کی گٹھڑی ہے جسے کھولوں گا
دل سے یہ آخری گٹھڑی بھی اتر جائے تو
چند لمحات کو میں جان مری سو لوں گا
تم کو میں یاد کراتا ہوں مگر رہنے دو

8
میں غم کے پیرہن کی وہ
عجب آواز رکھتا ہوں
عجب الفاظ رکھتا ہوں
عجب انداز رکھتا ہوں
عجب تاثیر رکھتا ہوں
جو سینہ چیر دینے کی

3
تمہیں یہ کیسے لگتا ہے
محبت عام ہوتی ہے
محبت جس سے ہو جائے
اسی پر شام ہوتی ہے
زمانے سے جو ڈر جائے
وہی ناکام ہوتی ہے

4
بچ بچ کے چل رہے تھے کہ راحیل ہو گئے
ایسے پڑے ہیں عشق میں قندیل ہو گئے
جب سے پتہ چلا ہے کہ وہ ہیں بہت حسین
کانٹے بھی میری راہ کے سجیل ہو گئے
کیسا خمار ہے یہ محبت کا میری جاں؟
سب رنگ تیرے رنگ میں تحلیل ہو گئے

12
ازل سے دیکھ رہا ہوں ستارے گردش میں
سکون دینے جو آئے نہ کوئی رات ہوئی
جہاں میں سوچ رہا تھا کہ جیت آیا ہوں
اسی جگہ پہ اچانک ہی مجھ کو مات ہوئی
سنا تھا میں نے نفاست مزاج لوگوں کا
پڑی جو تم پہ نظر پھر نہ کوئی بات ہوئی

6
گم سم گم سم ہوتا ہوگا
کھو کر مجھ کو روتا ہوگا
اور ستم کیا کر سکتا ہے؟
غیر کے من میں سوتا ہوگا
چہرہ اس کا پھول کی مانند
شبنم سے جو دھوتا ہوگا

2
ترے نام سے ابتدا کر رہا ہوں
مرا حوصلہ دیکھ کیا کر رہا ہوں
محبت عبادت، عبادت محبت
زمیں زاد ہوں اور کیا کر رہا ہوں
میں آیا ہوں جینے بہت مختصر سا
رفو گر رفو ہوں رفو کر رہا ہوں

1
محسن
ہمم
آج بات کرتے ہیں
بات تو روز ہی کرتے ہیں
امحم
آج اس کی بات کرتے ہیں

3
چند آنکھوں کو کھٹکتا ہوا یہ اک اڑیل
جس کو کہتا ہے زمانہ کہ یہ ناکارہ ہے
مرے قاصد مرا پیغام رسائی کر اب
اُن کو کس طور بتا دے کہ تمہارا محسن
تو نے جیسا بھی بنایا ہے بڑا پیارا ہے

1
سنو
ہمم...
تم پیتے ہو...
ہاں...!
کیا....؟
ہاں پیتا ہوں،

2
میرے ہرجائی یہ کشکول محبت تیرا
اس میں کیا خاک میں چھانوں گی زمانے کی بتا؟
تو نے یہ زود فراموشی نبھائی کیوں کر
ایک کوڑی کی بھی قیمت نہ لگائی کیوں کر
کبھی جو خواب میں آیا تھا چراغوں کی طرح
پھر وہ صورت مرے اندر کی بجھائی کیوں کر؟

1
جب بھی اس کے چہرے کو
آنکھوں کے سامنے پاتا ہوں
خاموشی میرے اندر
دھاڑیں مار کے روتی ہے

1
اس نے پوچھا ہے کیا کمی ہے تمہیں؟
کس لیے جا بجا بلکتے ہو؟
میں تھا خاموش پر نگاہوں سے
اشک بے ضابطہ روانہ ہوئے

جہاں میں الجھے رہو گے اگر بتانے میں
کہاں سے زخم لگا ہے جگر کے خانے میں
عجیب لوگ ہیں ہندہ مزاج رکھتے ہیں
سپیرے دیکھ رہا ہوں سخن کے خانے میں
میں اُس رقیب کو دشمن کہاں سمجھتا ہوں
جسے گمان ہو عزت کے آنے جانے میں

گر تو چاہے تو یہ دیوار ہٹا سکتا ہے
تو مصور ہے تو پھر کچھ بھی بنا سکتا ہے
سانس لیتا ہے تو ظاہر ہے دھڑکتا ہوگا
تُجھ سے بہتر یہ بھلا کون بتا سکتا ہے
میں جو عجلت میں خدوخال بنا دوں اس کے
تو جو مجنوں ہے قیامت بھی اٹھا سکتا ہے

وہ اب ٹوٹی عمارت ہو گئی ہے
جہاں چاہا تھا میں نے عکس تیرا
ترے رخسار کی باتیں بتاتے
جواں عمری میں بوڑھا ہو گیا ہوں
کسی خستہ سڑک پر جب چلا ہوں
تو ہاتھوں کی لکیریں دیکھتا ہوں

ہر گل پچھ تو ذات متعلق
اجڑن دے حالات نہ پوچھ
جیوندیاں جیوندیاں مو بیٹھا واں
سانہا دے اوقات نہ پوچھ
ہسدے ہسدے رو پیندا واں
روندے روندے ہس پیندا واں

2
جسم چھلنی پڑا ہے جب سے تم
آخری بار ملنے آئی تھیں
بات جو فون پر ہوئی تھی وہی
تم نے بولا تھا سینے لگنا ہے
آخری بار، پھر بچھڑنا ہے
اور پھر ایک بار دیکھیں گے

2
تو نے سوچا ہے حاضری کا جب
یہ بھی سوچا ہے کیسے جائے گا؟
کیسے جائے گا اس کے درباں پر؟
یہ بھی ممکن ہے تیری دستک سے
اس کو محسوس ہی نہ ہو دستک
یہ بھی ممکن ہے اس کی چوکھٹ پر

2
دشت میں زم نہیں ہوں گے
غم زیادہ ہیں کم نہیں ہوں گے
آپ آئیں تو محفلیں ہوں نا
ہم اکیلے میں رم نہیں ہوں گے
اب اسی سوچ میں میں رہتا ہوں
دکھ مٹانے سے کم نہیں ہوں گے

3
دل کے باعث رہا ہوں ہارا میں
بیچ اپنا ضمیر آیا ہوں
چاہتوں میں بھی فرق ہوتا ہے
یہ سبق سیکھ کر میں آیا ہوں
جس نے چھوڑا تھا مجھ کو اِترا کے
اس کا حاکم خرید آیا ہوں

3
غمِ دنیا سے دور بیٹھے ہیں
ہائے کیسے حضور بیٹھے ہیں
آگ سینے میں جل رہی ہے کہیں
آپ کیسے نفور بیٹھے ہیں
راحتیں اور کس طرح پائیں
آپ سینے سے دور بیٹھے ہیں

2
آئی تھی رات خواب میں پریوں کے دیس سے
بیٹھی رہی سرہانے، لگایا گلے مجھے
محسن مجھے پڑھا کے سبق زندگی گئی
اب کے میں نیند میں ہوں کہ آئے وہ خواب میں
بولوں گا تم سے ملنے کے باعث یہ اک مریض
سینے سے لگ کہ تیرے شفا یاب ہو گیا

1
تو جا رہا ہے ارادتاً تو
میں خود کو تجھ سے نکال لوں گا
خدا گوا ہے سنبھال لوں گا
میں خود کو سانچے میں ڈھال لوں گا
خدا گوا ہے سنبھال لوں گا
یہ میری قسمت نہ مل سکا تو

2
پہلے دل باغبان ہوتا تھا
شام کا اہتمام ہوتا تھا
دن حسیں رات پُر جوانی سی
زندگی کا گمان ہوتا تھا
اب یہ پرسوز سی کہانی ہے
دن میں چڑیوں کا شور ہوتا ہے

2
مدتیں ہو گئیں بچھڑے ہوئے تُجھ سے جانا
آ کے اک بار مجھے سینے لگا کے جانا
تو نے دیکھی ہے کبھی آب سے بچھڑی مچھلی؟
دل مچلتا ہے تری یاد میں ایسے جانا
روز اک طور سے دیتا ہوں دلاسہ خود کو
روز اک طور سے یہ جسم بکھرتے جانا

1
قیامت صغریٰ کے بعد بھی محسن
قیامت کبریٰ میں پیش ہونا ہے

2
جنت کی آرزو میں کچھ اس قدر گئے
رُخصت کیے ہیں وہ جو جنت زمیں پہ تھے

2
محبت عشق کے صدقے اُتارے، ہر بلا ٹالے
صداقت جذبوں میں محسن علی اعلان ہوتی ہے

2
بے سبب خیالوں کو ایک گام لازم ہے
بے لگام گھوڑوں کو اک لگام لازم ہے
سست زندگانی کو تیزگام ہونا ہے
برق آشنا دل کو اک خیام لازم ہے
کیا ہی خوبصورت ہے درد آشنا ہونا
درد آشنائی کو اک مقام لازم ہے

1
کس قدر ہجر جھیل سکتا ہوں
مجھ پہ تحقیق کر رہا ہے وہ

1
تو سے جو مراسم ہیں
یہ بھی معجزاتی ہیں
ہم کسی زُلیخاں کو
یوں اگر ملے ہوتے
تو یقین جانو تم
اس جہانِ فانی کے

20
تو جا رہا ہے ارادتاً تو
میں خود کو تجھ سے نکال لوں گا
خدا گوا ہے سنبھال لوں گا
میں خود کو سانچے میں ڈھال لوں گا
تری جدائی اُبال لوں گا
خدا گوا ہے سنبھال لوں گا

13