| آج کی رات ذرا میری رباعی سن لو |
| عین ممکن ہے کہ پھر مجھ کو اجازت نہ ملے |
| کُچھ خیالات کی گٹھڑی ہے جسے کھولوں گا |
| دل سے یہ آخری گٹھڑی بھی اتر جائے تو |
| چند لمحات کو میں جان مری سو لوں گا |
| تم کو میں یاد کراتا ہوں مگر رہنے دو |
| بند قبروں میں جو مدفن ہیں انہیں سونے دو |
| اب یہ اسرار کرو گی تو بتانا ہے مجھے |
| اچھا پکا جو بتاؤں تو برا مانو گی |
| روٹھ جاؤ گی جو مجھ سے تو کماں تانو گی |
| اور پھر تیر اتارو گی مرے سینے میں |
| اسی سینے میں جہاں تم نے قدم رکھا تو |
| اس میں موجود تمناؤں نے بدلے تھے چلن |
| اب وہ سینہ جو دہکتا تھا تمہاری لو سے |
| ایسے ویران ہے جیسے کوئی آشوب چمن |
معلومات