| جسم چھلنی پڑا ہے جب سے تم |
| آخری بار ملنے آئی تھیں |
| بات جو فون پر ہوئی تھی وہی |
| تم نے بولا تھا سینے لگنا ہے |
| آخری بار، پھر بچھڑنا ہے |
| اور پھر ایک بار دیکھیں گے |
| مے کدے کے سرور والوں کو |
| کس خماری سے وہ گزرتے ہیں |
| ہونٹ کی حدتوں میں گم ہو کر |
| ایکجا ہم بھی مے اتاریں گے |
| یہ تسلی دلائی تھی تم نے |
| بوسہ لینا ثواب ہوتا ہے |
| پھر اچانک سے میں نے گھیرا تھا |
| جیسے بچے کو گھیرتا ہے کوئی |
| ہاتھ بس گال تک ہی پُہنچے تھے |
| جیسے انگلی بڑھی تھی ہونٹوں پر |
| سانس میری عجب ہی للچائی |
| جیسے بادِ نسیم گل لے کر |
| باغباں پر کرے اثر طاری |
| ہوش کھونے لگا تھا میں اپنا |
| شرم کی زد میں تم بھی تھیں آئیں |
| یاد ہے تم کو آخری لمحہ؟ |
| ہاتھ تھامے ہوئے کہا تھا جب |
| کس قدر عشق مجھ سے کرتے ہو؟ |
| کس قدر جاں نثار کرتے ہو؟ |
| اور پھر میں نے تم سے یہ بولا |
| ہر بلائیں تمہاری ٹالوں گا |
| اور تم مسکرا کے بولی تھیں |
| جاؤ پگلے بلائیں ٹالو گے |
| بس محبت سے مجھ کو پالو گے |
| اس محبت کے صدقے میں اک دن |
| سب بلائیں تمہاری ٹالوں گی |
| اور پھر دیکھا عشق والوں نے |
| اک محبت کو امر ہوتے ہوئے |
| داستانوں میں جزم ہوتے ہوئے |
معلومات